مبصر : ایس معشوق احمد
میر نیازی کا مصرعہ ہے کہ __
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
دنیا کی رنگارنگی ہی نہیں بلکہ ادبی دنیا کی ہفت رنگی بھی خواتین کی بدولت ہے۔ خواتین نے اپنی علمی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار فکشن اور شاعری میں ہی نہیں کیا بلکہ نقد نگاری میں بھی اپنی اہمیت منوائی اگرچہ فن نقد نگاری میں ان کی تعداد قلیل ہے۔عصر حاضر میں جن خواتین نے تحقیق ، تخلیق اور تنقید کے علاوہ مدیرانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا ان میں ڈاکٹر رمیشا قمر کا نام اہم ہے۔ ریاست کرناٹک کے معروف شہر گلبرگہ سے تعلق رکھنے والی رمیشا قمر نے معتدد کتابیں قلمبند کی ہیں۔ان کی پہلی کتاب "رفعت قلم "( تنقیدی و تحقیقی مضامین ) کو ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ان کی دوسری کتاب ” ارژنگ قلم ” حیدر آباد کرناٹک کے نسائی ادب پر مشتمل ہے اور یہ کتاب دو جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے۔ وہ اس راز سے واقف نظر آتی ہے کہ ___
صفحۂ کاغذ پر جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
قلم سے ان کی محبت ، دلچسپی اور رشتے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی پہلی دو کتابوں کے عنوانات اور رسالے کے عنوان میں ” قلم ” بطور لاحقہ استعمال ہوا ہے ۔ تحقیقی و تنقیدی کاموں کے علاوہ قدرت نے انہیں تخلیقی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے اور ان کی مرتب کردہ تصانیف بھی کافی مقبول ہوچکی ہیں جن میں ” کرناٹک میں اردو ماضی اور حال ” اور معروف فکشن نگار غنضر کے نو ناولوں کا کلیات آبیاژہ۔” بات کرکے دیکھتے ہیں "( مشاہیر کے انٹرویو ) بھی ان کی صلاحیتوں اور ادبی دلچسپی کا مظہر ہے۔ شاعری بھی کرتی ہیں ان کا ایک شعر ہے کہ ___
میں شیدائے اردو رمیشا قمر ہوں
زمانے میں ممتاز بولی ہے میری
کچھ لوگ "شیدائے اردو ” ہونے کا فقط دعوی کرتے ہیں لیکن کچھ اپنے قلم اور عمل سے اس کا اظہار کرکے ثابت کرتے ہیں کہ وہ واقعی اردو زبان کے محب اور دیوانے ہیں۔امسال ان کی ایک اور مرتب کردہ تصنیف ” اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں ” منظر عام پر آئی ہے۔اس انتخاب سے قبل بھی اردو کے شاہکار افسانے کتابی صورت میں مرتب کئے گئے ہیں جن میں اردو کے تیرہ افسانے ( اطہر پرویز ) ، ہمارے پسندیدہ افسانے ( اطہر پرویز ) ،جدید افسانے ( مشرف عالم ذوقی )، تیرہ بہترین کہانیاں ( معین اعجاز ) پریم چند کے تیرہ افسانے ( ڈاکٹر پشپندر کمارنم )وغیرہ شامل ہیں اور یہ کتاب ان جیسی کتابوں کے تتبع میں ہی مرتب کی گئی ہے۔یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ مجموعے کا عنوان ” اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں ” کیوں رکھا گیا ہے؟ جبکہ اس عرصے میں تیرہ سے کئی زیادہ بہترین کہانیاں تخلیق کی گئی ہیں جن کو عالمی ادب کے پہلو میں رکھا جاسکتا ہے یا جن افسانہ نگاروں کے افسانے اس انتخاب میں شامل ہیں انہوں نے مزید بہترین افسانے بھی تخلیق کئے ہیں۔اس کا جواز ڈاکٹر رمیشا قمر نے دیباچے میں پیش کیا ہے کہ عنوان کے لیے تیرہ کا ہندسہ کیوں منتخب کیا گیا ہے۔لکھتی ہیں کہ__
” تیرہ کہانیوں کی تعداد والا عنوان میں نے اس لیے طے کیا کہ اس عنوان کے تحت ہمارے بزرگ افسانہ نگاروں کی تیرہ کلاسیکی کہانیوں کا جو انتخاب شائع ہوا اس سے اس کا رشتہ قائم ہوجائے۔اس عنوان میں ایسی برکت ہے کہ اس کتاب میں شامل ایک ایک کہانی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ممکن ہے تیرہ کا یہ ہندسہ نئے کہانی کاروں کے حق میں بھی نیک شگون ثابت ہوجائے۔”
اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں _دبیاچہ _ صحفہ 20
یہ انتخاب گزشتہ انتخابات سے منفرد اس لحاظ سے ہے کہ دیباچے میں مرتبہ نے ان تیرہ کہانیوں کا مختصر تجزیہ بھی پیش کیا ہے جو نہ صرف ان کہانیوں کو سمجھنے میں معاون ہے بلکہ مرتبہ کی تنقیدی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتا ہے ۔دوم اس میں افسانوں کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاروں پر بھی توجہ دی گئی ہے اور افسانے سے قبل ان کے کوائف اور کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو گذشتہ انتخابات کا حصہ نہیں ہے۔
اس کتاب میں سلام بن رزاق سے لے کر خالد جاوید تک معروف افسانہ نگاروں کے تیرہ منتخب اور مشہور افسانے شامل کئے گئے ہیں۔جن کی تفصیل یوں ہے:- یک لویہ ( سلام بن رزاق )، سنگھار دان ( شموئل احمد ) ، عقب کا دروازہ ( حمید سہروردی ) ، دخمہ ( بیگ احساس ) نیو کی اینٹ ( حسین الحق ) ، گنبد کے کبوتر ( شوکت حیات) ، دیر سے رکی ہوئی گاڑی ( عبد الصمد ) ، کڑوا تیل ( غضنفر ) نیم پلیٹ ( طارق چھتاری ) ، ڈار سے بچھڑے ( سید محمد اشرف ) ، شہر ( ترنم ریاض )، زہرا ( محسن خان ) اور برے موسم میں ( خالد جاوید ) شامل ہیں۔
یہ مجموعہ پچھلی چار دہائیوں کے بہترین افسانوں کا انتخاب ہے اور اس عرصے میں جو تبدیلیاں صنف افسانہ میں آئیں چاہیے وہ ہیتی ہو یا موضوعاتی ان کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے درست لکھا ہے کہ __
” مجمل طور 1970 ء تاحال کے افسانوی لحن کو مجتمع کرنے کا رمیشا قمر کا یہ کام توجہ کی نظر کا طالب ہے بالخصوص اس حوالے سے بھی کہ یہ انتھالوجی بیسوی صدی کے آخری تین دہائیوں میں تخلیق کردہ چنیدہ افسانوں کا انتخاب ہی نہیں انتخاب کردہ افسانوں کے مرکزی خیال کی نشاندہی کے علاوہ شامل انتخاب افسانہ نگاروں کے کوائف کی جمع آوری کا جتن بھی ہے۔”
امید ہے کہ اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں مقبولیت کے زینے تیزی سے طے کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائیں گی دعا بھی میری یہی ہے۔
