تحریر:محمد سلیم سالک
انگریزی کے مشہور افسانہ نگار او۔ہنری کی کہانی After twenty yearsہمارے بارھویں جماعت کے نصاب میں شامل تھی ،جس میں دو دوست ایک دوسرے سے بیس سال بعد ملنے کا وعدہ کرتے ہیں ۔بیس سال گزرنے کے بعد جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دونوں متضاد صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں ۔اسی طرح کا ایک کارنامہ شمس الدین شمیم نے کرکے دکھایا ،جب انہوں نے اپنے دوستوں کو بیس سال بعد ایک جگہ پر جمع کیا ۔جوگزری صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں کبھی تلاش ِ ادب تو کبھی رائٹرس کلب کے روح رواں تھے ۔یہ ایک ایسی محفل تھی ،جس میں نہ کوئی ایجنڈا تھا نہ ہی کوئی منضبط پروگرام ۔ ہر آنے والا دوسرے سے گلے ملتا ،مصافحہ کرتا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کربیٹھتا کہ ہم یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں ۔اس سوال کا جواب سوائے شمیم کے کون دے سکتا تھا ،لیکن شمیم ؔ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔بقول ِ غالب ؔ ع
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
کمرے کے ایک کونے میں سلطان الحق شہیدی ؔ،فریدؔپربتی ،ایس ۔ایم ،قمراور عبد الرشید فراقؔ ادبی گفتگو میں محو تھے تو دوسری طرف سجاد حسین اور اعجاز بانڈے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہے تھے ،تو اسی اثناء میں دروازے پر قہقہہ مارتے ہوئے چند چہرے نظر آئے ،جن میں جاوید آذر ؔ، خالد بشیر ؔ،غلام نبی شاہدؔ اور رفیق ہمرازؔ تھے ۔تو محفل میں علیک سلیک کی آوازیں بلند ہونے لگی ۔ابھی محفل کا رنگ جما ہی تھا کہ ایک سفید ریش بزرگ شخص نے زندہ دلی سے سلام کرتے ہوئے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔توسب کھسر پھسر کرنے لگے کہ یہ کون صاحب ہیں لیکن جاوید آذرؔ کی پارکھی نظر ان کو پہلے ہی پہچان گئی۔انہوں نے سفید پوش بزرگ سے گلے ملتے ہی چلایا ، مُنیرتم تو بوڑھے ہوچکے ہو۔منیر ؔ صاحب نے برجستہ جواب دیا ،خود کو کبھی آئینہ میں دیکھا ہے۔یہ سنکر سب ہنسنے لگے اور احتراماً کھڑے ہوگئے کہ اب محفل میں مزہ آئے گا ،کیونکہ منیر احمد منیرؔ ،جن کی سنجیدہ باتوں سے بھی مزاح کے پھوارے پھوٹتے ہیں، ہمارے درمیان موجود ہیں۔دروازے پر عمر مجید کی صدا سنائی دی ،کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔ہر ایک ان کو اپنی بغل والی جگہ دینے پر آمادہ تھا ،لیکن وہ تو موقعہ شناس نکلے ،انہوں نے اپنے یارِ خاص منیر احمد منیر ؔکو ہی ترجیح دی۔اسی اثنا ء میں شمس الدین شمیم ؔ کی آواز سنائی دی کیا سب آگئے ۔تو سلطا ن الحق شہیدی ؔنے فقرہ کستے ہوئے کہا ،برخوردارخود دیکھ لو کتنے باراتی ساتھ لینے ہیں ۔ایک ایک کرکے سب جمع ہوگئے ،سبھوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے ، دبے دبے ہونٹوں میں ایک دوسرے سے شکایت کرتے کہ کیا سچ مچ ہم نے اتنے برس غیروں کی طرح گزارے،ایک دوسرے سے بے خبر ،جیسے کبھی ملے ہی نہیں تھے ۔کوئی وقت کو موردِ الزام ٹھہراتا ،تو کوئی زندگی کی مصروفیات کا رونا روتا ۔غرض سبھی حیران و پریشان سوچ رہے تھے کہ شمیم ؔکے دل میں کیا سوجھی کہ اس نے سب کو جمع کیاہے ۔سب ایک دوسرے کو تک رہے تھے ،جیسے بات کرنے کا کوئی بہاناڈھونڈ رہے ہوں۔تو شمیم ؔ نے نہایت سادگی سے کہا کہ مجھے اپنے دوستوں کی یاد ستانے لگی تو میں نے غنیمت سمجھا کہ سب کو پھر ملانے کا کوئی بہانا بنایا جائے ۔ ساتھ ہی بیس سال پرانے واقعات کا تذکرہ کرنے لگے ،تو منیر احمد منیر ؔ نے تلاش ادب کی با ت چھیڑتے ہوئے ماضی کی یادیں تازہ کیں ۔جیسے کسی بچے کو نانی کی کہانی یاد آگئی ہواور وہ بضد ہو کہ سب اس کو سنیں ۔عمر مجید نے کئی ایک واقعات سنائے تو شمس الد ین شمیم ؔ نے بھی محفل میں رنگ جمتے ہی ادیبوں کے معاشقے چھیڑدیئے۔جس کو سب دلچسپی کے ساتھ سننے لگے ۔سلطان الحق شہیدی نے کئی رنگا رنگ واقعات سنائے ،سب ماضی کی دُھندلی یادوں میں کھوگئے،کچھ تو آنسوں کو روکنے کی ناکام کوشش میں لگے تھے ۔ جیسے سب بزبان ِ غالب ؔدل کی کیفیت بیان کررہے ہوں ۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاق نسیاں ہوگئیں
خدا جانے شمس الدین شمیم کے دل میں کیا سوجھی وہ فوراً اٹھے اور سب کو کھانے کی طرف متوجہ کیا کہ پہلے کھانا ،پھررونا ۔کھانے کا خاص انتظام رکھا گیا تھا ،جس میں وازوان کے سارے پکوان موجود تھے ،جیسے سچ مچ شمیم دلہا تھا اور ہم سب باراتی۔ کھانے کے بعد پھر محفل جمنے لگی تو شمیم ؔ پھر باہر کی طرف دوڑتے دکھائے دئیے ،لیکن اکیلے نہیں لوٹے بلکہ ساتھ میں ایک فوٹو گرافر بھی تھا ۔اس کو حسن ِ اتفاق ہی سمجھئے یا شمیم ؔکی بزلہ سنجی کہ فوٹو گرافر بھی ایک نیم شاعر نکلا ۔اب یہ کیسے ممکن تھا کہ چند شعراء ایک جگہ جمع ہوں اور وہ اپنے کلام کے دفتر کھولنے کی کوشش نہ کریں ۔بس پھر کیا تھا کہ شہیدی ؔ صاحب نے بغل میں چھپائی ہوئی بیاض نکالی اور اپنے مخصوص انداز میں اشعارگنگنانے لگے بقول جاوید آذر شہیدی صاحب ’’ خ‘‘ کو اپنے اصلی مخرج سے ادا کرتے ہیں تو شعرگنگنانے لگتے ہیں۔ ابھی شہیدیؔ صاحب دل کی بھڑاس نکال ہی رہے تھے کہ منیر احمد منیر ؔ نے بھی مزاحیہ اندازمیں ڈوبی دو کشمیری غزلیں سناڈالیں کہ کہیں شہیدی صاحب کاتفکر آمیز کلام سن کر سب کی طبیعت بھاری نہ ہوجائے اور میں کلام سنانے کے بغیر ہی چلتا بنوں ۔ جاویدؔ آذر نے فرید پربتی کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اپنے کلام سے نوازیں ۔غلام نبی شاہد ؔ کا افسانہ ’’ بھوشن لال کیا ز گوہ وٹس ‘‘ سنتے ہی محفل سنجیدہ ہوگئی ۔کہانی میں کشمیر کے پُرآشوب حالات کی عکاسی اس طرح کی گئی تھی کہ سب حیرت میں پڑگئے ۔ شاہد صاحب نے اتنی بڑی کہا نی اردو میں کیوں نہیں لکھی ، کاش شاہد صاحب اس کو اردو میں لکھتے ، توان نام نہاد افسانہ نگاروں کو پتہ چلتا کہ سچ مچ کشمیر میں کیا حالات ہیں ،جو تخیل کی بنیاد پر اس موضوع پر لکھتے ہیں ۔منیر صاحب نے کہانی سنتے ہی کہا اگر میں یہ کہانی شاہد کی زبانی نہ سنتا تو میں اس کو اختر محی الدین کے کھاتے میں ڈال دیتا۔محفل کی کیفیت دیکھ کر خالد بشیر ایک کونے میں کچھ سوچ رہے تھے کہ جیسے ان کو بھی اپنے چند اشعار سنانے کا موڑبن رہا ہو۔محفل کا رنگ اتنا جم چکا تھا کہ جیسے کسی کو گھر جانے کی جلدی نہیں تھی ،لیکن وقت کا کیا کیا جائے گھر تو ہر حالت میں پہنچناتھا ،ورنہ گھر والوں کے دلوں میں بُرے خدشات جنم لیتے ۔
گھر پہنچتے ہی میں نے شمیم صاحب کے افسانوی مجموعہ ’’ ویرانے ‘‘ کی تلاش شروع کردی ۔بدقسمتی سے خود شمیم صاحب کے پاس بھی اس کا کوئی نسخہ موجو د نہیں تھا ۔میں نے بڑی تگ ودو کے بعد دسٹرکٹ لابئریری سے ’’ ویرانے ‘‘ کو بازیافت کیا ۔جب میں نے شمیم صاحب سے اس کاتذکرہ کیا تو انہوں نے بڑے جذباتی ہوکر مجھ سے اس کی ایک زیراکس کاپی مانگی ۔شمیم صاحب جب بھی ملتے تو اس بات کی شکایت ضرور کرتے کہ میں نے ان کی کتاب پر کبھی کوئی کالم نہیں لکھا۔پھر جب میں نے اپنی کتاب ’’ جموں وکشمیر کے منتخب اردو افسانے ‘‘ کا ڈول ڈالا تو مجھے شمیم صاحب کے کئی افسانے پڑھنے کا موقعہ ملا،کیونکہ میں چاہتا تھا کہ انتخاب میں شمیم مرحوم کی کہانی بھی شامل ہو ۔کافی غو ر وخوض کے بعد میں نے’’مکان نمبر 370‘‘ کا انتخاب کیا کہ جس سے کشمیر کی پوری تاریخ قاری کے ذہین محفوظ ہوجاتی ہے ۔
وقت گزرتا گیا اور شمیم صاحب سے قربت بڑھتی گئی ۔جب بھی ان کا کوئی افسانہ شائع ہوتا تو ضرور پوچھتے کہ افسانہ کیسا لگا۔پھر اگر کوئی قابلِ بحث بات ہوتی تو ہفتوں اس میں صرف کرتے کہ میں نے صحیح لکھا ہے ۔تھرائیڈ افسانے پر اچھی خاصی گفتگو ہوئی ،جوں ہی میں عنوان پر اعتراض کیا تو فوراً کہتے برخوردار مطالعے کے ساتھ تجربے کا ادراک بھی ضروری ہے ۔ابھی تم عمر کے اس پڑاو ٔ پر نہیں پہنچے ہو جہاں تھرائیڈ کے عنوان کو تم صحیح معنوں میں سمجھ سکو۔پھر طویل مدت کے بعد ملے تو افسانچوں کی سوغات لے کرنمودا ر ہوئے ۔منٹو سے معزرت چاہتے ہوئے ’’کھول دو‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی کہانی تخلیق کی ،جس میں آج کے حالات کی عکاسی ہوتی ہے ۔
جب بھی ملتے ہشاش بشاش اور اپنائیت سے ملتے،باتوں باتوں میں اپنے کشمیری افسانوں کے بارے میں ضرور تذکرہ کرتے ۔ایک بے چینی سی تھی کہ کشمیری افسانوں کا مجموعہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے ۔مگر افسوس ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آج شمیم صاحب کے چلے جانے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ او ہنری نے اپنی کہانی کی بنیاد تخیل پر رکھی جبکہ ہمارے او ہنری (شمس الدین شمیم ) نے تو حقیقت میں بیس سال بعد دوستوں کو ملا۔اس طرح شمیم مرحوم نے اوہنری کی کہانی کو عملی جامہ پہنا کر تاریخ کا ایک باب رقم کیا اور خود کہانی کا کردار بن کر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ۔
پس نوشت ۔۔شمیم صاحب کے انتقال کے بعد ، ان کے شاگرد رشید ارشد صاحب نے مرحوم کے کشمیری افسانوں کو ایک کتابی شکل شاٸع کیا۔
