تحریر:اقرا ذوالفقار
کسی بھی عظیم شخصیت کے کارناموں سے آگاہی پر اور کسی بڑے تخلیق کار کے تخلیقی فن پاروں سے حظ اٹھاتے ہوئے اس کی شخصیت، رہن سہن دوست احباب اور خانگی و عائلی زندگی سے متعلق بے شمار سوال پیدا ہوتے ہیں۔ غالب بھی ایک ایسے ہی تخلیقی فن کار ہیں جس کا شعری کلام اور نثری ادب پارے آفاقی حیثیت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت قارئین ادب کے لیے آغاز ہی سے اہم رہی ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہر دور میں اور ہر سطح پر کوشش کی گئی ہے۔
اپنے عہدمیں دوسرے تمام شعرا سے زیادہ ان کا ذکر تذکروں میں ملتا ہے اس کے بعد غالب کے پرستاروں نے بے شمار سوانح مرتب کیں۔ لیکن تشنگی کا احساس پھر بھی ختم نہیں ہوا اس لیے غالب کے چاہنے والوں نے غالب کے خطوط سے غالب کے حالات زندگی ایک جگہ جمع کر کے آپ بیتی مرتب کرنے کی ایک نئی روایت ڈالی اور آج میرا موضوع یہی آپ بیتیاں ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ ایک درجن ہے۔ جیسا کہ ہر فرد آ گاہ ہے کہ آپ بیتی ایک ایسی تحریر ہے جس میں ہم نہ صرف خود پر گزرے ہوئے اچھے اور برے واقعات کو قلم بند کرتے ہیں بل کہ اس حوالے سے اپنے ذاتی تاثرات کا بھی کھل کر اظہار کرتے ہیں غالب نے خود تو با قاعدہ طور پر ایسی کوئی تحریر نہیں لکھی جو آپ بیتی کے زمرے میں آ سکے۔
البتہ غالب نے اپنے خطوط میں جابجا اپنی زندگی کے رنگ بکھیرے ہیں اور غالب کی شخصیت میں دل چسپی رکھنے والوں نے ان خطوط میں بکھرے ان رنگیں موتیوں کو چن کر ایک حسین مالا میں پرونے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس میں پہلی قابل ذکر کو شش نظامی بدایونی کی ”نکات غالب کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ کتاب 1901 میں منظر عام پر آئی لیکن اس میں کافی اختصار سے کام لیا گیا ہے۔
” غالب کا روزنامچہ“ خواجہ حسن نظامی کی تصنیف ”غدر کے افسانے“ کا ساتواں حصہ ہے جو غالب کے خطوط سے آپ بیتی کی طرز پر ترتیب دیا گیا ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب غدر کے موضوع پر ہے اور اس میں دہلی اور غدر دہلی سے متعلقہ واقعات اور تفصیلات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے مگر ابتداء میں غالب کے آبا و اجداد، حلیہ اور دیگر مشاغل کا ذکر اس طرح ترتیب وار آیا ہے کہ اس کا بطور آپ بیتی تجزیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
اگر ہم آپ بیتی کے متن کا خطوط غالب سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظامی نے بعض جگہوں پر بہت سے جملوں کو مختصر کر کے ایک جملے میں ضم کر دیا ہے مگر یہ عمل اس خوب صورتی سے سرانجام دیا کہ اسلوب غالب پر کوئی خاص فرق پڑتا محسوس نہیں ہوتا اگرچہ یہ عمل اپنی جگہ مستحسن نہیں ہے۔ مگر پھر بھی قابل قبول ہے۔
اس طرح ”سرگزشت غالب“ میرزا بشیر ایم۔ اے بی۔ ٹی کی مرتب کردہ ایک اور اہم آپ بیتی ہے۔ اس میں کل سولہ ابواب ہیں جن میں غالب کی زندگی کے مختلف پہلووں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ ایک نسبتاً جامع آپ بیتی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ چند اہم ابواب میں کرایہ مکان، کروڑا والی حویلی، غالب کا شمار باغیوں میں، نا امیدی، بھائی کا انتقال، رنج و الم، غم فراق، عہد ضعیفی، یاد گزشتگاں وغیرہ شامل ہیں۔ یہ غالب کی زندگی کے وہ گوشے ہیں جن پر اس سے پہلے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دیباچے میں ترتیب قائم رکھنے کے دعوٰے کے باوجود واقعات میں کوئی ربط نہیں۔ وہ واقعات جن کا تعلق غالب کے بچپن یا لڑکپن سے ہے وہ غالب کی وفات والے باب کے بعد میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہ کتاب اپنے اندر موجود بہت سی خامیوں اور سقم کے باوجود ایک جامع آپ بیتی کی حیثیت سے پرستان غالب کے لیے قابل قدر تحفہ ہے۔
”سرگزشت غالب“ کے نام سے ایک اور ناصر عابدی کی مرتبہ کتاب ہے۔ جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ یہ نظامی بدایونی کی ”نکات غالب“ کی حرف بحرف نقل ہے۔ سوائے کتاب کے نام اور مرتب کے نام کے۔ اس کی حیثیت روح غالب، قارئین غالب اور خود نظامی بدایونی کے ساتھ ایک ناخوش گوار مذاق کے سوا کچھ نہیں۔
”کہانی میری زبانی میری“ کے عنوان سے حفیظ عباسی نے 1984 ءمیں غالب کی صد سالہ برسی پر پرستان غالب کے لیے بطور تحفہ اور جناب غالب سے اظہار عقیدت کے طور پر مرتب کی۔ اس آپ بیتی کی سب سے اہم خصوصیت تین چار صفحات کا تنقیدی دیباچہ ہے جس میں پہلی مرتبہ خطوط غالب کو خود نوشت سوانح کے آئینے میں دیکھا گیا ہے۔ دوسری اہم خصوصیت اس کی جامعیت ہے اس میں غالب کے احوال و آثار سے متعلقہ 84 پہلووں کو موضوع بنایا گیا ہے اس کے علاوہ غالب کی تصانیف اور ادبی شخصیت پر بھی خطوط کی روشنی میں تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔
غالب بیتی عشرت رحمانی کی مرتب ایک ایسی آپ بیتی ہے جسے مرزا محمد بشیر مرتب ایم۔ اے بی۔ ٹی کی سرگزشت غالب سے نقل کیا گیا ہے۔ گو کہ حواشی ختم کر کے اور آخر میں چند خطوط کو من و عن درج کردینے سے اس کو نظرثانی و اضافہ شدہ ایڈیشن قرار دیا ہے مگر اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں بل کہ یہ ایک انتہائی بداخلاقی کا مظاہرہ ہے۔
اس طرح نثار احمد فاروقی کی آپ بیتی ”غالب کی آپ بیتی“ اس قدر جامع اور فنی اعتبار سے مکمل ہے کہ انہیں بے اختیار غالب کی آپ بیتیوں کے مرتبین کا سالار اعلیٰ تصور کرنے کو دل چاہتا ہے۔ نثار احمد فاروقی نے غالب کی زندگی کے تقریباً تمام جلوے یکجا کر دیے ہیں گو کہ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے مگر درحقیقت دریا کوزے میں بند ہے۔ غالب کی اس سے زیادہ مربوط اور جامع آپ بیتی اس سے پہلے ابھی تک ترتیب نہیں دی گئی اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہے۔
” غالب از غالب“ میاں شہباز علی خاں کی مرتب کردہ کتاب ہے یہ کل چار جلدوں پر مشتمل ایک تفصیلی کتاب ہے جس میں غالب مرتب کو اپنی کہانی سناتا نظر آ رہا ہے گو کہ اس کتاب میں کچھ حد تک غالب کی کہانی خود ان کی زبانی والا دعویٰ یکسر رد ہوتا نظر آتا ہے اور آپ بیتی کا رنگ بھی پھیکا پڑتا محسوس ہوتا ہے لیکن اگر وہ اقتباسات جو غالب اپنی کہانی سناتے ہوئے استعمال کرتا ہے کے واوین ختم کر دیے جائیں تو تحریر میں اس قدر ربط ہے کہ اس کا آپ بیتی ہونے کا کسی بھی لحاظ سے انکار نہیں جا سکتا ہے۔
یہ آپ بیتی اب تک کی مرتبہ تمام آپ بیتیوں سے زیادہ مفصل ہے اور غالب کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے پہلو کو جو خطوط میں منکشف ہوا ہے اس ایک کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے۔ بلاشبہ غالب کی مرتبہ آپ بیتیوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس طرح ”روداد دستنبو بزبان غالب“ بھی شہباز علی ہی کی مرتب کردہ تصنیف ہے جس میں غالب اپنی کتاب دستنبو کی تصنیف و تالیف کی کہانی سناتا ہے اس لیے اسے بھی ”غالب از غالب“ کا ہی ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ موجودہ عہد کے ایک اور اہم ادیب خالد ندیم نے پرستار غالب کا حق ادا کرتے ہوئے ”آپ بیتی مرزا غالب“ کے عنوان سے 2019 ءکو مرزا غالب کی ایک سو پچاسویں برسی پر غالب کے چاہنے والوں کی خدمت میں پیش کی ہے
اس آپ بیتی کی پہلی دل چسپ خصوصیت اس کا دیباچہ ہے جو غالب کے خطوط سے مرتب کیا گیا ہے۔ جس سے غالب کی تحریر کی گہرائی و معنی پروری کا صحیح معنوں میں ادراک ہوتا ہے۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ خالد ندیم نے نہ صرف اردو خطوط بل کہ فارسی خطوط سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے۔ چوں کہ فارسی خطوط کے ترجمے پر انحصار کیا گیا ہے اس لیے اکثر جگہوں پر اسلوب غالب کے حوالے سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے اس کے علاوہ جابجا قوسین میں مختلف شخصیات، ان کے ناموں، مختلف جگہوں اور واقعات کے حوالے سے وضاحتیں عبارت کو کسی حد تک بوجھل بنا دیتی ہیں اور اسلوب غالب کو متاثر کرتی نظر آتی ہیں مگر معلوماتی اعتبار سے یہ ایک جامع کتاب ہے اور اپنی جگہ پر بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
اس کے علاوہ محمد عتیق کی ایک مضمون کی شکل میں ”غالب کی کہانی خود ان کی زبانی“ کے عنوان سے ترتیب دی گئی آپ بیتی اور نقوش کے آپ بیتی نمبر میں اور فن اور شخصیت کے آپ بیتی نمبر میں غالب کی آپ بیتی کے حوالے سے جو مضامین شائع ہوئے ہیں وہ انہی کتابوں کو مد نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں اور ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس لیے ان پر زیادہ تبصرے سے گریز کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ غالب ایک نابغہ روز گار شخصیت ہے اور اس کی شخصیت کی روشنی میں اس کے کلام میں کئی نئے پہلووں کو سامنے لایا گیا اور جب تک زبان اردو کو سمجھنے والے اس روئے زمین پر موجود ہیں وہ بدستور کلام غالب کی نئی پرتوں کو کھولنے کی سعی کرتے رہیں گے اور آپ بیتی غالب کے سرمائے میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔
