
نہیں میں قطعا” اپنی بیٹی کی شادی وہاں نہیں کروں گا ۔ ایک معمولی تنخواہ والا ٹیچر میری بیٹی کی ضروریات کہاں پورا کر سکتا ہے ۔ ایک امیر گھرانے میں پلنے والی لڑکی جس کا باپ ایک اے کلاس کنڑیکٹر ہو شادی کے بعد ایک معمولی ٹیچر کے گھر بہت مشکل سے ہی رہ پائے گی ۔ اس لیے میں نے فیصلہ یہی لیا کہ اس کی شادی ماجد سے ہی طے کروں گا جو میرے جیسے ایک اے کلاس کنٹریکٹر کا اکلوتا بیٹا ہے ۔ بڑی لاڑ پیار سے پلا ہوا لڑکا اپنی بیوی کو بھی عیش کرائے گا ۔ وہاں وہ سکھ اور چین سے اپنی شادی شدہ زندگی گزارے گی ۔۔۔۔
دلاور خان اپنے مکان کے سحن میں چاے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی بیوی سے بات کرتا ہے ۔۔۔۔
اگلے مہینے دلاور خان کو دوکروڑ کی بل نکلنے والی تھی ۔ دس اسکولی عمارتیں دو سالوں میں تعمیر کروا کے اب وہ بل نکلنے کے انتظار میں تھا ۔ محکمہ تعلیم نے سٹی ھائی اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب کو اس کام کے لیے نگراں مقرر کیا تھا ۔ اس لیے بل نکالنے سے پہلے ہیڈماسٹر صاحب سے این او سی حاصل کرنا ضروری تھا ۔ تب ہی اس کی دو کروڑ کی بل نکل سکتی تھی ۔۔۔۔
جب دلاور خان ہیڈماسٹر صاحب سے ملنے اس کے آفس میں پہنچے اور این او سی کے لیے درخواست کی تو ہیڈماسٹر صاحب اپنے تین اور اساتذہ کے ہمراہ تمام تعمیر شدہ اسکولی عمارات کے معائنہ کرنے کے لئے نکل پڑے ۔ جب انہوں نے معائنے کے دوران یہ پایا کہ اسکولی عمارات کی تعمیر میں غیر معیاری میٹیریل استعمال ہوا ہے اور پاخانے اور واشروم بھی ناکارہ ہیں تو ہیڈماسٹر صاحب نے این او سی پر دستخط کرنے سے بالکل انکار کیا ۔ کافی اصرار اور ہیڈماسٹر صاحب کے پیر پکڑنے کے باوجود بھی دلاور خان این او سی حاصل کرنے سے قاصر رہا ۔ بلکہ اسے کہا گیا کہ نئے سرے سے اسکولی عمارات کو معیاری میٹیریل استعمال میں لاکر جازب نظر بنایا جائے اور پاخانوں اور واشروم بھی قابل کار آمد بنائے جائیں ۔ تب ہی این او سی پر دستخط کیا جا سکتا ہے ۔ دلاور خان نے اپنے دوستوں وغیرہ سے بھی ہیڈماسٹر صاحب کو منوانے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔۔۔۔
دلاور خان کو جب محسوس ہوا کہ کوئی چارہ نہ رہا تو اس نے دبارہ تعمیر کرائی گئی عمارتوں پر اچھے سے کام کروانا شروع کیا ۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر اس نے بیوی سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔۔
امیری، سرمایہ داری اور روپیہ ہی سب کچھ نہیں ہے ۔ عزت بھی ایک بڑی چیز ہوتی ہے اور وہ قیمتی اور مہنگی ہوتی ہے ۔ میں نے دس اسکولی عمارات کے تعمیر کا کنٹریکٹ اس غرض سے لیا تھا تاکہ بہت بچت حاصل ہو گی لیکن ایک اسکول کے ہیڈماسٹر جسے ان کا نگراں مقرر کیا گیا تھا نے اپنی ایمانداری دکھا کر مجھے تا عمر ایک اچھا سبق سکھایا ۔۔۔
اب مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنی پیاری لخت جگر کی شادی اس ٹیچر کے ساتھ ہی طے کریں گے جس پہ آپ پہلے ہی متفق تھی ۔۔۔
