
گرائونڈ زیرو سے کسی بھی خبر کو کوریج کرنے کا الگ مزہ ہے۔حالات جو بھی ہوں جان جوکھم میںڈال کر منظر کو کیمرے میںقید کر لینا بھی کسی جنگی سپاہی سے کم نہیںہے۔
ابھی دو دن پہلے کی بات ہے ۔دونوںبھائیوں کو پوری لائو لشکر کے ساتھ راجدھانی لایا گیا تھا۔انہیںاس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اب اس کا بھی انکائونٹر کر دیا جائے گا ۔مگر خیرو عافیت سے پہنچنے پرانہوں نے میڈیا والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اگر نیشنل میڈیا کی نگرانی میں نہیں ہوتاتو پلک جھپکتے ہی کسی بھی وقت گاڑی پلٹ سکتی تھی۔‘‘
جان جوکھم میں ڈال کر فوٹیج یکجا کرنے کے لئے میں بھی اس خبر کو کوریج کرنے کیلئے ساتھی رپورٹر کے ساتھ گرائونڈ زیرو پر پہنچ چکا تھا ۔پولیس کی وین ان دونوں کو لیکر میڈیکل چیک اپ کرانے کیلئے ہاسپٹل کے قریب پہنچ چکی تھی۔میں بھی کیمرہ سنبھال کر ایک ایک سین کو قید کرنے کیلئے تیار تھا۔جونہی دونوں گاڑی سے اترے اور ایک میڈیا والے کا جواب دینے لگے ، تبھی اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ ماحول میںگونج اٹھی ۔اس سے پہلے کہ کچھ سمجھ پاتا میں نے بھی دو قدم پیچھے کھینچ لئے ۔ سچ پوچھئے تو جان حلق میں آگئی تھی ۔
میڈیا والوں کی بھیڑ سے نکل کر تین حملہ آوروں نے تابڑتوڑگولیاں برسا کر دونوں بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔مگر اس لائیو انکائونٹر نے میرے ذہن کے حاشیے میں یہ سوال ابھرتا رہا جس کا جواب؟
پولیس ان دونوں کو بچانے کے بجائے خود بچنے میں لگی رہی اور کوئی کراس فائرنگ نہیں ہوئی ۔کسی نے ہینڈس اپ نہیں کہا مگر حملہ آوروں نے اپنے ہتھیارپھینک کر ایک مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے خود کو سرینڈر کر دیا۔تب کہیں جاکر پولیس والوں نے انہیں گرفتار کیا۔جس اسلحہ کوبینڈ کیا گیا ہے وہ آئے کہاں سے ؟ ۔۔ لاش کے پاس موجود ایک کیمرہ اور مائیک کا وارث آخر کون؟؟؟
