از:ملک جان کے ڈی
فراق گورکھپوری کا اصل نام رگھوپتی سہائے تھا۔ 28 اگست 1896 میں گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گورکھ پرشاد ایک وکیل تھے جو گورکھپور میں وکالت کرتے تھے۔ ان کا آبائی وطن گورکھپور کی تحصیل بانس گاؤں تھا فراق کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلص کرتے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔
زمانے کی گردش سے چار نہیں ہے
زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے
فراق نے اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی اس کے بعد میٹرک کا امتحان گورنمنٹ جوبلی کالج گورکھپور سے پاس کیا۔ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کردی گئی۔ فراق جیسے حساس اور جمال پرست انسان کی زندگی میں شادی ایک بڑا حادثہ بن گئی۔ ان کی بیوی معمولی شکل و صورت کی تھیں۔ اور فراق کے بیان کے مطابق دھوکا دے کر ان کی شادی کردی تھی اس سے ان کو بڑا صدمہ پہنچا۔ وہ خود لکھتے ہیں ”میری شادی نے میری زندگی کو زندہ موت بنا کر رکھ دیا“ اس لیے ان کی زندگی میں ایک ناسور ثابت ہوئی۔
ان کی مان کے مطابق ”تین سال کی عمر میں رگھوپتی سہائے کسی بدصورت مرد یا عورت کی گود میں جانے سے انکار کر دیتا تھا بلکہ یہاں تک ضد کرتا تھا کہ ایسے لوگ گھر میں نہ آئیں۔
فراق کی زندگی کا دوسرا بڑا حادثہ ان کے والد کی موت تھی۔ اور والد کے انتقال کی وجہ سے ان کی مالی حالات بھی بگڑتے گئے۔ یہاں تک ان کو اپنا آبائی مکان لکشمی بھون ( دادا کا مکان) فروخت کرنا پڑا۔ فراق سیاست میں مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے اثر میں آ گئے بعد میں جیل بھی گئے جیل میں فراق نے کئی غزلیں کہی ہیں۔ مثلاً
اہل زندان کی یہ محفل ہے ثبوت اس کا فراق
کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشان نہ ہوا
بعد میں اس نے سیاست کو خیر باد کیا اور 1930 میں آگرہ یونیورسٹی میں انگریزی سے ایم اے کیا اور آلہ آباد ہی میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ان کی مادری زبان بھوجپوری تھی۔ ان کی شاعری میں ہندی آمیزش الفاظ ملتے ہیں اور فارسی کی آہنگ بھی ملتی ہے۔ اور زندگی کے رنگ بھی
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
فراق کی معشوق بھی گھریلو تھی۔ ان کی نظم جگنو ایک طویل نظم ہے اس کے اندر آپ کو فراق کی محبوب نظر آئی گئی۔ یہاں دو مصرع پیش خدمت ہے۔
اٹھا کے رکھ لے خدائی کو جو ہتھیلی پر
کرے دوام کو جو قید ایک لمحے میں
سنا؟ وہ قادر مطلق ہے ایک ننھی سی جان
خدا بھی سجدے میں جھک جائے سامنے اس کے
شمیم حنفی صاحب نے کہا تھا کہ ”میں نے ایک بار فراق کو کہا تھا کہ آپ ایک گھنٹہ بھر سے باتیں کر رہے ہیں آپ تھک گئے ہوں گے تو اس نے کہا تھا کہ باتیں کون کرتا ہے میں تو دماغ سے سانس لیتا ہوں“ انگریزی ادب سے متاثر تھے خاص کر کیٹس سے بہت متاثر ہوئے تھے انگریزی کے رنگ بھی ان کے شاعری میں ملتی ہے۔ فراق خود یگانہ چنگیزی کے بھی قائل تھے لیکن ان دونوں کو تسلیم کرنے میں اردو والوں نے بہت دیر لگائی۔
یگانہ چنگیزی جنہوں نے مرزا غالب کو نہیں بخشا تھا، نے فراق کے بارے میں کچھ یوں کہا ”فراق کی شاعری حقیقی شاعری کی بہترین مثال ہے۔ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں دنیا سے جاتے ہوئے غزل کو فراق کے ذمہ کیے جا رہا ہو“ ۔ فراق بنیادی طور پر عشقیہ شاعر تھے۔
اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
اور اس شعر کو ملاحظہ کریں کیا خوب کہا ہے۔ اس پر ہزار داد قربان
سانس لیتی ہے وہ زمین فراقؔ
جس پہ وہ ناز سے گزرتے ہیں
آخر 3 مارچ 1982 کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
