از:اورحان کمال …مترجم : مسعود اختر شیخ
وہ ہر صبح کمرے میں بچھے پلنگ پر سے ہر جوان لڑکی کی طرح اٹھتی، ہاتھ منہ دھوتی اور پھر آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوتی۔ دیر تک میک اپ کرتی، مگر سب بے فائدہ۔ گلی میں نوجوان لڑکے اسے دیکھ کر چلاتے:
’’ہائے ہائے، ذرا اس عورت کو تو دیکھو۔ یوں لگتا ہے جیسے دہی میں ڈوبا ہوا بینگن!‘‘
یہ سن کر وہ سرخ ہوجاتی۔ گھر کو بھاگتی اور وہاں جاکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔ وہ اپنی بد صورتی سے آگاہ تھی۔ آگاہ تو تھی مگر پھر بھی کڑھتی رہتی تھی۔ آخر اس نے اپنے آپ کو خود تو پیدا نہیں کیا تھا ناں۔ اگر اس نے اپنے آپ کو خود پیدا کیا ہوتا اور اپنے کپڑے لتوں میں کوئی کوتاہی کی ہوتی تو کوئی بات تھی۔
وہ اکثرکود کر خود کو اپنی امی کے بازوؤں کے حوالے کردیتی، اپنا پریشانی سے بِھنایا ہوا سر ماں کی خشک چھاتی پر ٹکاتی، بڑھیا کے جھریوں سے بھرے چہرے کو آنسوؤں سے دھلاتی، اور پھر کہتی:’’امی جان، میری پیاری امی جان۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ آپ مجھے جنم ہی نہ دیتیں ؟’’
بڑھیا کے دل پر اس بات کا بڑا گہرا اثر ہوتا۔ وہ کہتی:’’میری بچی، میں نے تمہیں اتنا بڑا کرنے میں کم مصیبتیں جھیلی ہیں کیا؟’’
وہ اپنی ماں کو اس کے دونوں کندھوں سے پکڑ کر دیر تک اس کی آنسو بھری آنکھوں کی طرف دیکھتی رہتی، اس ماں کی طرف جس نے کبھی اپنی بیٹی کو بدصورت ہونے کا طعنہ نہ دیا تھا اور جو اسے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی تھی۔ اس کی امی اسی طرح چُور چُور ہوکر اپنی بدنصیب بیٹی کی طرف ہمدردی سے دیکھتی رہتی۔ اس بیٹی کی طرف کہ جس کی قسمت میں شادی کا دروازہ کبھی بھی کھلنے کی امید نہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی کالی زبان والی پڑوسنوں کی دل خراش باتیں بھی اسے یاد آجاتیں۔ مثلاً ان میں سے کوئی کہتی:’’فہیمہ خانم، خدارا یہ تو بتاؤ یہ لڑکی تمہارے کون سے خاوند سے پیدا ہوئی ہے؟ کیا اس کا باپ بھی اسی جیسا تھا؟‘‘
’’کیوں کیا بات ہے؟ کیا ہوگیا ہے؟ میری بیٹی کی کون سی شے تمہیں پسند نہیں ؟‘‘
’’ہائے پسند کیوں نہیں، لڑکی ماشاءاللہ ہے۔ یہ ابرو، یہ آنکھیں، یہ قد بُت!‘‘ اس پر قہقہے بلند ہوتے۔ پڑوسنوں میں سے کوئی اور خاتون جلتی پر تیل ڈالتی:’’خدا کی قسم خالی فہیمہ خانم، اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو اسے ضرور مقابلہ حسن میں شامل ہونے کے لئے بھیجتی۔ ‘‘
تب فہیمہ خانم، بے پناہ غصے سے بھری، اپنی بیٹی کا شیرنی کی طرح دفاع کرتی، پڑوسنوں کی اینٹ کا جواب پتھرسے دیتی، پھر متنفر ہوکر اٹھ کھڑی ہوتی اور اپنے گھر چلی جاتی۔ غصے سے کانپتے پاؤں لے کر اپنے آپ کو اپنے کمرے میں بند کرلیتی، اور چند ہی سال بعد جس بیٹی کو بالکل تن تنہا اس دنیا میں چھوڑ کر خود رخصت ہونے والی تھی، اس بیٹی کا خیال ذہن میں لاکر گرم گرم آنسو بہاتی رہتی۔ لڑکی اکثر ہر بات سے بے خبر ہوتی، لیکن کبھی کبھی بعض اشارات کی مدد کو روتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ کر پوچھتی:’’کیوں رو رہی ہیں، امی جان؟‘‘
بڑھیا اپنے ہونٹ چباتے ہوئے جواب دیتی:’’کچھ نہیں بیٹی، کچھ بھی تو نہیں۔ ‘‘
’’کیا میرے لئے رورہی ہیں آپ؟‘‘
’’نہیں، خدا کی قسم نہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ تمہاری کس بات پر روتی بھلا؟‘‘
’’شاید کسی نے میرے بارے میں کوئی بات کہہ دی ہو۔ ‘‘یہ سن کر اس کی امی پھر آنسو بہانا شروع کردیتی۔ اور پھر ماں بیٹی دونوں ایک دوسری سے لپٹ کر ہچکیوں سے روتی رہتیں۔ آخر کچھ بھی ہو، وہ بھی لڑکی ہی تو تھی، یعنی عورت ذات۔ ہر عورت کی طرح اس کا بھی جی چاہتا تھا کہ اسے بھی کوئی چاہے، کوئی اس کی تلاش میں بھی مارا مارا پھرے، کوئی اس کے پیچھے بھی بھاگا بھاگا پھرتا رہے۔ اِسٹیمر میں، ٹرام میں، ریل گاڑی میں، بس میں، یہاں، وہاں … کاش کہ کوئی ایسی حرکت کرتا ! کبھی وہ دن بھی آئے کہ کوئی اس کا بھی پیچھا کرتے کرتے اس پر بھی آوازیں کسے!
مگر کہاں ؟ کوئی پیچھے پلٹ کر اس کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ اس کے نئے سلے ہوئے پھولدار ریشمی کپڑوں، اس کے جوتوں، اس کے گلے میں لٹکے الماس کے لاکٹ کے باوجود کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ حالانکہ اس نے ابھی ایک گھنٹہ ہوا مٹھی بھر دولت کے عوض وہ لاکٹ خریدا تھا! جسم پر پہنا ہوا پھولدار ریشمی جوڑا شہر کے بہترین درزیوں میں سے ایک درزی سے نہایت احتیاط سے سلوایا تھا! اور اس کی گرگابی؟ یہ بھی اس نے ملک کے سب سے فیشن ایبل اسٹور سے خریدی تھی۔ کیا یہ سب اشیاء اس قابل بھی نہ تھیں کہ کوئی ایک بار، محض ایک بار ہی پلٹ کر ان پر نظر ڈالتا، ان اشیاء کے لئے حسرت کا اظہار کرتا؟
اسے سخت غصہ آرہا تھا۔ دبلے پتلے، دراز قد، بھاری بھرکم، سیاہ فام، سفید چمڑی والے، مونچھوں والے اور بغیر مونچھوں والے احمقوں کی ایک فوج تھی جو وہاں سے گزر رہی تھی لیکن کوئی اس کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا۔ بس نہیں دیکھ رہا تھا۔ یہ سب عقُلا تھے جن کی پسندیدہ شے ان کی اپنی ذات تھی، سب امارات پرست تھے۔
اچانک وہ چونکی۔ سامنے کے فٹ پاتھ پر ایک خوبصورت نوجوان ایک سادہ لباس والی، بلکہ نہایت بدذوق قسم کے لباس والی عورت کا پیچھا کررہا تھا۔ وہ اس عورت سے بس دو ہی قدم پیچھے چلتا چلتا کچھ کہہ رہا تھا مگر عورت تھی کہ اسے گھاس بھی نہیں ڈال رہی تھی۔ حالانکہ اگر یہی سب کچھ اس کے اپنے ساتھ پیش آتا تو بس کیا بات تھی!
غصے پر قابو پاتے ہوئے وہ سامنے والے فٹ پاتھ پر چلی گئی۔ اس عورت کا لباس واقعی نہایت بھدا تھا۔ اور اس کے جوتے؟ گلے میں لاکٹ نام کی کوئی شے بھی نہیں تھی۔ اور جسم پر لباس نہ پھولدار تھا نہ ریشمی اور نہ ہی کچھ اور۔ یہ مرد بھی درحقیقت بڑی ہی بیوقوف شے تھا۔ بھلا اس قدر بھدی عورت کا پیچھا کرنے میں کیا تک تھی؟ تو کیا وہ عورت خوبصورت تھی؟ کوئی زیادہ ہی حسین تھی کیا؟ کیا وہ اتنی حسین تھی کہ نوجوان اس کے لباس کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی اس گرویدہ ہورہا تھا؟
اس نے اپنی رفتار تھوڑی تیز کرلی۔ اب وہ اور نوجوان تقریباً ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ لیکن اسے اس عورت کا چہرہ دیکھنے کا شوق تنگ کررہا تھا۔ اس کے چہرے کا اس پر تو کوئی اثر تک نہیں پڑتا تھا مگر پھر بھی یہ اس کا چہرہ دیکھنے کی بڑی خواہشمند تھی۔ ابھی وہ اس عورت کے قریب پہنچنے ہی کو تھی کہ اچانک وہ ذرا رُکی۔ اتنے میں پیچھے سے آنے والا نوجوان اس سے آٹکرایا اور ساتھ بولا : ’’سوری۔ ‘‘
’’سوری؟ کیا سوری؟ اتنی دیر سے میرا پیچھا کررہے ہو، لگاتار مجھ پر آواز یں کس رہے ہو، مگر میں نے منہ سے آواز تک نہیں نکالی۔ بالآخر آگے بڑھ کر مجھ سے ٹکرا گئے !‘‘
’’کیا میں ؟‘‘
’’ہاں تم… تم !‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے ایک ہجوم نے انہیں گھر لیا۔ نوجوان کا رنگ سرخ ہوگیا۔ گھبراہٹ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دیکھ رہا تھا اور حیران ہورہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟ کیا بات ہے؟‘‘
وہ بولی:’’ہونا کیا تھا۔ اس نے میرا راستہ کاٹا اور جان بوجھ کر مجھ سے آٹکرایا۔ کیا سیدھی راہ پر چلتی، اپنے حال میں مست کسی غیرت مند لڑکی کو یوں تنگ کیا جاتا ہے؟ کتنی بری بات ہے۔ تمہیں شرم نہیں آتی؟‘‘
پھر وہ تیزی سے وہاں سے چل پڑی۔
وہ اڑتی چلی جارہی تھی۔ آپے میں نہیں سما رہی تھی۔ تیزی کے باعث چُور چُور ہورہی تھی۔ اچھا ہوا۔ بہت ہی اچھا ہوا اس کے ساتھ۔ میں نے اچھا ہی کیا!وہ گھر پہنچی۔ دل میں وہی ہیجان، وہی کھلبلی، وہی غرور لئے۔ ماں نے پوچھا:’’کیا ہوا ؟ اس قدر گھبراہٹ کیوں ؟‘‘ اس نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا: ’’کچھ نہیں۔ ایک کتے نے چھیڑا تھا۔ ‘‘
’’تمہیں چھیڑا تھا کیا؟‘‘
’’ہاں مجھے، لیکن میں نے بھی اسے خوب سبق سکھا دیا ہے۔ میں نے کہا بدتمیز، میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جن سے تم واقف ہو۔ ‘‘اس کی ماں دیر تک اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر بولی: ’’آفرین ہے تم پر۔ آفرین ہے میری بیٹی پر۔ اسے جان جانا چاہئے کہ ہر پرندے کا گوشت حلال نہیں ہوتا!‘‘
