رحمان راہی
ہندوستانی سماج کی آجکل جونئی تشکیل ہورہی ہے،اس کا عمل بڑا پیچیدہ ہے۔ یہ عمل بیک وقت شسکت دریخت کا بھی ہے اور تعمیر و تزئین کا بھی۔ نئے سماج کے معماروں کے سامنے دو طرح کے مسائل ہیں، ایک وہ جو اس جاگیر داری نظام کی پیداوار ہیں، جسے انگریز امراجی جاتی دفعہ نیم مردہ حالت میں ۔۔۔۔۔۔۔ تھے اور دوسرے وہ جو مستقل سے متعلق اشتراکی نصب العین کے گویا قدرتی تقاضے ہیں۔
سماج کی نئی تشکیل میں ہندوستانی ادب اور فنکار ابتداہی سے شریک کاررہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنفین کی ایک انجمن نے اعلان کیا تھا کہ ’’ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپناتے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جدوجہد کریں گے اور ہر اس اقدام کی حمایت کریں گے، جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر زندگی کی راہ دکھائے۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اتھائیں گے۔‘‘ ان مقاصد کے حصول میں ہندوستانی ادب اور فن کو آج تک جو کامیابی ہوئی ہے اس کا آپ حضرات مجھ سے بہتر جائزہ لے سکتے ہیں۔ میں صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی سمجای زندگی میں آج بھی ایسے متعدد عناصر ہیں جن کے خلاف ادیبوں اور فنکاروں کو اپنے طور سے جدوجہد کرنی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آج ملک کے سامنے بہتر زندگی کی راہ مقابلتا! زیادہ روشن ہے لیکن اس راہ میں بڑی ناہمواریاں ہیں جنہیں دور کرنا ابھی باقی ہے اور اس کام میں ملکی اور غیر ملکی تہذیب وتمدن سے فائدہ اٹھانے کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔
سماج کی نئی تشکیل کے سلسلے میں موجودہ ہندوستانی ادب و فن کے سامنے ایک اہم اور بنیادی فریضہ یہ ہے کہ ملک کو گونا گوں تمدنی اکائیوں کے مابین ایک ہمہ گیر جذباتی اتحاد اور پائید ار احاساتی ایکتا پیدا کی جائے۔ ماضی میں کچھ تو مقامی جاگیر دار انہ نظام کی پر پیچ پسماندگی کی وجہ سے اور کچھ بیرونی سامراج کی حکمت عملی کے سبب یہ اتحاد حسب منشاء پروان نہ چڑھ سکا۔ ادب اور فن کی پرواز عموماً علاقائی فضائوں میں ہی ہوتی رہی۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس جذباتی اتحاد کو محکم بنانے کے لئے مشترکہ طور پر سعی کی جائے۔ آپ ساہتیہ اکادمی کے اس عندیے سے ضرور آشناہوں گے کہ ہندوستان ادب اگرچہ مختلف زبانوں میں تخلیق ہوتا ہے لیکن اس کی روخ ایک ہے۔ آج کے ہندوستانی ادیبوں اور فنکاروں پر ساہتیہ اکادمی کے اس عندیے کو نئے سماج کی زندہ حقیقت بنانے کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ آپ کو علاقائی رنگارنگی کی بہتر صورتیں برقرار رکھتے ہوئے ایک قومی اور عالمی کیفیت پیدا کرنا ہوگی۔ سماجی تعمیر نوکی راہ میں موجود طبقاتی زندگی کی اونچ نیچ اور قومیتوں کے باہمی اختلافات سنگین رکاوٹیں ہیں۔ ہندوستانی ادب و فن نے پہلے بھی ضمیر آدم کی ترجمانی کرکے اس طبقاتی اور قومی نابرابری کےخلاف آواز اٹھائی ہے۔ آج جب کہ ہندوستان کی اکثر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صورت میں اشتراکی سماج کی تعمیر کو اپنا مقصد بتارہی ہیں ادیبوں اورفنکاروں کے لئے یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اسی سلسلے میں اپنا کما حقہ حصہ ادا کریں ۔ سماج کی تعمیر انسانی بہبود کے لئے ہوتی ہے۔ عظیم ادب اور فن بھی اپنے مخصوص انداز میں انسان کی خدمت کرتے ہیں۔ آج کے ہندوستانی ادیب اور فنکار کے سامنے احترام آدم کے لئے اپنے ملک کی فن سازگار بنانے کا بڑا ہی عظیم کام ہے۔ طبقاتی امتیازی کے خلاف جدوجہد کرنا اور قومتیوں کے احترام کی راہ ۔۔ یہ روح آدم کی عملی تعظیم ہے۔ بقول منشی پریم چند جب ہماری نگاہ حسن عالمگیر ہوجائے گی۔ تب ہم ۔۔ شرت کو اور عسکریت اور ملوکیت کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گی۔ تب ہم صرف صفحہ کا غذ پر تخلیق کرکے مطمئن نہ ہوجائیں گے بلکہ اس نظام کی تخلیق کریں گے جو حسن اور مذاق خودداری اور انسانیت کا منافی نہیں۔
موجودہ زمانے کی ایک امتیازی خصوصیت اس کی سائنسی عقلیت پسندی ہے۔ آج ہم چاند کے لئے محض بچوں کی طرح نہیں بلکہ اس پر اسرار سیارے پر سچ مچ اپنے خاکی قدم ڈالنے کی تیاری کررہے ہیں۔ فطرت پر انسانی فتوحات کی رفتار آج جس سرعت سے جاری ہے وہ آپ اپنی مثال ہے۔ سائنس کی اس بے فطرت کے بارے میں پرانے تصورات اور عقیدت فرسودہ ہورہے ہیں۔ ان کی جگہ نئے نظریات لے رہے ہیں اور نیا ذوق تجس پنپ رہا ہے۔ اس عالمی نشاۃ ثانیہ کے اثرات اس قدرہمہ گیر ہیں کہ ہندوستان جیسا بچھڑا ہوا ملک بھی سائنسی بنیادوں پر اپنے سماج کی تعمیر نوکرنے لگا ہے۔ آج کا ہندوستانی ادب اور فن اس تعمیر میں کبھی اپنا رول ادا کرسکتا ہے جب وہ اپنے فن کی دیوانگی کو سائنس کی فرزانگلی سے زیر کرنے ۔۔۔۔۔ پسماندی کی دلیل ہوتی ہے۔ نئے سماج کی تشکیل کے لئے ہندوستانی عوام کی ذہنی بیداری لازمی ہے اور اس ضمن میں ادب اور فن کا جو فرض ہے اس کی اہمیت ظاہر ہے۔ آج کل پنج سالہ منصوبوں کا چر چا سارے ہندوستان میں ہے لیکن منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جتنی ضرورت دولت اور مشینری کی ہے اس سے کہیں بڑھ کر اس بات کی ہے کہ عوام کے ذہنی نہاں خانوں میں گھس کر ان کے تخلیقی میلان کو بیدار کیا جائے اور یہ کام ادیب اور فن کا بہتر طور سے انجام دے سکتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے باشعور اور ذمے دار ادیب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ’’پہلے لکھنے والوں کو نظر آتا تھا کہ غریبی اور امیری کی تفر یق ہمیشہ رہنے والی ہے کیونکہ دنیا میں اتنی دولت ہی نہیں تھی کہ اس تفریق کو دور کرنے کی کوشش تک ذہن پہنچتا۔ لیکن اب سائنس ، صنعت و حرفدت اور ااسباب حمل و نقل نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ یہ مصیبتیں دور ہوسکتی ہیں اور ایسی دنیا بسائ جاسکتی ہے جہاں پر انسان کو ترقی کرنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ جب ایسی کوشش ہوسکتی ہے تو کیوں نہ کی جائے؟ کیوں نہ ایسی صورتیں نکالی جائیں جو ذہنی دنیا کو موجودہ دنیا کے قریب لے آئیں۔ اب ہم ان دونوں دنیائوں کے بیچ میں پل بناسکتے ہیں۔ ترقی پسند ادیب وہ ہے جو اس ہونے والی نوزائدہ دنیا تک پہنچ گیا ہے اور اب اس کو واقعی دنیا بنانا چاہتا ہے تاکہ اوروں کو بھی اپنے ساتھ وہاں تک کھینچ لے جائے۔ ہندوستانی ادب اور فن کے لئے پنڈت جی کے یہ الفاظ آج بھی مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں۔
ہندوستانی سماج کی پسماندگی کا ایک پہلو شہری اور دیہی زندگی کی دوری ہے۔ موجودہ ہندوستانی ادیب مجموعی حیثیت سے زیادہ ترشہروں کے ترجمان رہے ہیں۔ آج کے ادیب اور فن کا ر کو اپنی نظر میں وسعت پیدا کرکے صحیح معنوں میں عوامی ادب اور فن پیدا کرنا ہوگا اور یہ جبھی ممکن ہوگا۔ جب وہ شہروں اور دیہات میں رہنے والے کروڑوں انسانوں کی روز مرہ زندگی سے قریب ترہوکر ان کے دلوں کی دھڑکنیں سن لیں، ان کی معصوم امنگوں اور بے نام آرزوئوں کو فن کی واضح، بے باک اور شریف زبان عطا کریں۔ رابندرناتھ ٹیگور نے ایک موقعے پر ہندوستانی ادیبوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ ’’عوام سے الگ رہ کر ہم بیگانہ محض رہ جائیں گے۔ ادیبوں کو انسانوں سے مل جل کر انہیں پہچانتا ے۔ میری طرح گوشئہ نشین رہ کر ان کا کام نہیں چل سکتا میں نے ایک حد سے تک سماج سے الگ ۔ اپنی ریاضت میں جو غلطی کی ہے۔ اب میکں اسے سمجھ گیا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ نصیحت کر رہا ہوں۔ میرے شعور کا تقاضہ ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہئے۔ اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ ۔۔۔۔۔ ونادار رہے گا۔ یہ ھقیقت میرے دل میں چراغ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اے بجھا نہیں سکتا۔ آج کے ہندوستانی ادیبوں اور فنکاروں کو بھی ٹیگور کی طرح اپنے دلوں میں اس چراغ حق کو اجالا ہوگا۔
آخر میں اس حقیقت کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات افادی پہلوئوں پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کے سبب ادب اور فن اپنے اصلی مقام سے گر کر بے جان قصیہ خوانی ہجوگوئی اور وقتی پروپیگنڈا ہو کر رہ جاتے ہیں اور یوں وہ اصل افادیت بھی کھو ڈالتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں اس ادبی اور فنی سہل پسندی اور بے راہ روی کا مظاہرہ خود ہندوستان میں بھی ہوا اور روس اور چین جیسے دوسرے ممالک میں بھی۔ ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا پختگی کی دلیل ہے۔ ہندوستان نے پہلے بھی عظیم ادب اور فن پیدا کیا ہے جو روح عصر کا ترجمان ہوتے ہوئے بھی ابدیت کا حامل رہا ہے۔ جس نے بادہ و ساغر کی زبان میں مشاہدہ حق کی گفتگو کرکے قارئین کے ذوق جمال کی نہ صرف تشفی کی بلکہ اس کا تزکیہ بھی کیا۔ آج بھی روایت اور بغاوت کے حسین امتزاج سے اور ملکی اور عالمی تمدن کی بامعنی تحلیل سے ایسی تخلیقات پیش کی جاسکتی ہیں جو خاص زمانے کی آواز اور مخصوص حالات کی نقش گر ہوکر بھی عالمگیر اور ابدی ثابت ہوں۔
بشکریہ ہمارا ادب
