• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

اردو ادب اطفال کا بدلتا منظر نامہ

Online Editor by Online Editor
2023-12-17
in ادب نامہ
A A
اردو ادب اطفال کا بدلتا منظر نامہ
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریر:شاہ تاج خان
کاربوہائیڈریٹ،پروٹین،لحمیات،وٹامن،نمکیات(منیرلز) اور پانی ایک صحت مند ،تندرست جسم کے لیے ضروری ہیں۔جسم کی نشوونما کا دارومدار ہماری خوراک پر منحصر ہے۔ہم جس قدر اعلیٰ،معیاری متوازن اور غذائیت سے بھرپور غذا کا انتخاب کریں گے اسی قدر ہمارا جسم زیادہ طاقتور،توانا،صحت مند اور مضبوط ہوگا۔اسی لیے ہم تمام ضروری اجزاء کو اپنی خوراک میں شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔بچوں کی صحت پر ابتدا سے ہی توجہ دی جاتی ہے۔رحمِ مادر سے ہی بچے کی صحت کا خیال رکھنے کے لیے ڈاکٹر کی نگہداشت اور اُس کی ہدایات پر عمل آوری کی جاتی ہے۔معمولی سی تکلیف پر بھی ماہر(ڈاکٹر) سے رجوع کیا جاتا ہے۔گھریلو اورروایتی انداز ترک کرکے سائنس کے مستند وسائل پر یقین کیا جاتا ہے۔اپنے ارد گرد بکھرے سازو سامان پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لیجئے ۔جہاں تک نظر جائے گی سائنس ہی سائنس نظر آئے گی۔زندگی میں سائنس موجود ہی نہیں بلکہ اپنا ایک اہم اور ضروری مقام بھی حاصل کر چکی ہے ۔بچوں کے ادب کے لیے کوشاں محمد سراج عظیم صاحب، نئی دہلی کا کہنا ہے کہ‘‘بچہ آنے والے مستقبل کا فرد ہے۔اور مستقبل سائنس و ٹیکنالوجی کی حیراں سامانیوں کے ساتھ ظاہر ہوگا۔اگر اِس کی تیاری آج کا بچہ نہیں کرے گا تو جینا محال ہوگا۔’’لیکن ادب(اردو ادب)سائنس کو اُس کا جائز مقام دینے سے کیوں کتراتا ہے؟
نیلی روشنی کا پھیلتادائرہ
زندگی کی ضروریات اور جسمانی نشوونما کے لیے تو ہمارا اعتبار سائنس نے جیت لیا جو اطمینان کا باعث ہے۔دوسری اور بے حد اہم بات جو توجہ طلب ہے اور باعثِ فکر بھی ،کہ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے اب نانی دادی کی گود نہیں بلکہ موبائل کی نیلی اسکرین ہے۔بچے کے ابتدائی دور کی تربیت کی ذمّہ داری بھی سائنس کے کھلونے (موبائل) نے سنبھال لی ہے۔بچے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ پروڈکٹو عمر کا حصّہ اسی نیلی روشنی کے حصار میں گزارتے ہیں۔اسی نیلی روشنی میں ڈوبے سرشار بچے جب اسکول پہنچتے ہیں تو پہلی بار اُن کا تعارف نصاب کی درسی کتابوں سے ہوتا ہے۔کیونکہ ابھی تک تو اُنہیں معلومات پہنچانے کی ذمّہ داری موبائل پر متحرک ویڈیو(استاد) نبھا رہے تھے۔کُل ملا کر نانی،دادی،ماں باپ،کہانیاں،قصّے ،یہاں تک کے الف ب ت تک پڑھانے کی ذمّہ داری یا یوں کہیں کہ تعلیم و تربیت کا محور یہی نیلی روشنی بن گئی ہے۔مطلب بالکل سیدھا ہے کہ ہاتھ میں تو (موبائل)سائنس ہے لیکن ادب میں شامل کرنے میں ہچکچاہٹ ہے۔کیوں؟
بدلتا منظر نامہ
آخراردو ادب کہاں گیا؟وہ روایتی ادب جس میں جِن ۔بھوت ،پریاں،شہزادے شہزادیاں،طلسماتی دنیا،مافوق الفطری عناصر بچوں کی دلچسپی کا مرکز سمجھے اور کہے جاتے تھے۔وہ بچوں سے دور کیسے ہو گیا؟ایک وجہ شاید یہ ہے کہ جو کہانیاں،والدین اپنے بچوں کو سنانا چاہتے تھے وہ ادب انہیں کہیں ملا نہیں۔یا پھر اُن کے پاس وقت ہی نہیں تھا اِس لیے انہوں نے موبائل میں بچوں کی تعلیم کا انتظام کر دیا ۔ جہاں بچے نے کتاب کی خوشبو نہیں بلکہ نیلی روشنی کے زیرِ اثر تیز رفتار سے سیکھناشروع کر دیا۔والدین مطمئن ہو گئے اور اسکول میں اساتذہ کی ذمّہ داری بھی کم ہو گئی۔کچھ حد تک ادبِ اطفال بھی اِس الزام سے بری ہو گیا کہ وہ بچوں کو خیالی دنیا میں لے جاتا ہے، انہیں بہلاتا ہے ۔ ادب (اردو ادب) نے سائنس کو قابلِ توجہ نہیں جانا تو سائنس نے اپنے بَل پر بچے کی زندگی میں جگہ بنا لی۔بچے کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر بھی زندگی میں سائنس کی اہمیت سے انکار
کہیں دیر نہ ہو جائے
ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ ادب اپنے دور کا ترجمان ہوتا ہے،یہ دیکھا بھی۔زمانے نے کروٹ بدلی تو ضرورت کے مطابق ادب میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔جب تک سمجھے کہ اردو ادب عصری تقاضوں اور عصری رجحانات کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہا ہے تب تک معصوم بچوں کو نیلی روشنی نے اپنے حصار میں قید کر لیا تھا۔اردو ادب کو جدید علوم،سائنس اور ٹکنالوجی اور بالخصوص ادبِ اطفال پر توجہ دینے کی ضرورت اور اہمیت سمجھنے میں کافی وقت ضائع ہو گیا۔ایسا نہیں ہے کہ ادبِ اطفال خاموش تھا، لگاتار لکھا جا رہا تھا تخلیقات کتابی شکل میں شائع بھی ہو رہی تھیں ۔بچے کبھی کبھی اُن کا مطالعہ بھی کر لیتے تھے لیکن بچوں کے لیے لکھی گئی تحریریں انہیں طلسماتی دنیا میں لے جاتی تھیں یا پھر نصیحت کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتی تھیں۔ادیب اپنے وقت کا نباض ہوتا ہے۔شاید وقت پر سائنس کی اہمیت اور بچوں کی بدلتی نفسیات و دلچسپی کو اردو ادیب نے پہچاننے میں دیر کر دی۔ریڈیو،ٹیلی ویژن اور پھر انٹرنیٹ نے بچوں کی دلچسپی کو متاثر کرنے کا عمل کافی پہلے شروع کر دیا تھا۔اردو ادیب خاص طور پر بچوں کے لیے لکھنے والے ادیب اپنی روایتی طرز کو چھوڑ کر وقت کی ضرورت کو نہیں سمجھ پائے۔حالانکہ ادبِ اطفال میں کمی کا شکوہ تحقیقی کتابوں کے ذریعے کیا جاتا رہا لیکن تخلیق پر توجہ نہیں دی گئی۔جس کا خمیازہ اردو ادبِ اطفال میں جدید علوم اور سائنس کی عدم دستیابی کی شکل میں ہمیں بھگتنا پڑا۔بچوں کی ضرورت کے مطابق ادب تخلیق نہیں کیا گیا نتیجتاً بچے کتابوں سے دور ہوتے چلے گئے۔اردو کے خدمت گار شکایت تو کرتے رہے لیکن انہوں نے قلم نہیں اُٹھایا،لکھنے والوں کو راستہ نہیں دکھایا۔وہ وہی کرتے رہے جو سب سے آسان کام تھا یعنی انگلی اُٹھاتے رہے،شکوہ شکایت کرتے رہے۔اردو ادب کی دنیا کے سمندر میں ،سائنسی اور معلوماتی ادب تخلیق کرنے کا پتھر کسی نے وقت پر کیوں نہیں پھینکا؟
یہ بچوں کا کھیل نہیں
بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔اُس پر سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدید علوم کی معلومات کو ادب میں لکھنا مزید مشکل کام ہے۔یہ موضوعات ایک ادیب سے مطالعہ ،مکمل توجہ اور ذمّہ داری کا احساس چاہتے ہیں۔ادبِ اطفال کے اصول وضوابط تخلیق کار کو باندھے رکھتے ہیں۔قلم،محدود الفاظ اور بچوں کی چھوٹی سی دنیا میں رہ کر تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے۔ادیب کو زیادہ حرکت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لکھنے والے کو کھل کر اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔اسی لیے بڑے بڑے ادیب اِن تنگ گلیوں کا رُخ نہیں کرتے۔شاید اسی لیے اردو ادب کے مایہ ناز ادباء نے نشاندہی تو کی لیکن قلم اُٹھانے سے احتراز کیا۔بات کی اہمیت تو سمجھی گئی لیکن زمین پر کام نہیں کیا گیا۔دلچسپی کے مواد کی عدم موجودگی میں معصوم قاری کی تلاش کیوں؟
برخلاف اِس کے جب آج کے اردو ادبِ اطفال کے میدان پر نظر جاتی ہے تو ادیب الاطفال کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ہر دوسرا ادیب کاغذ قلم اٹھائے ادبِ اطفال کی جانب دوڑ رہا ہے۔کتابوں کے انبار لگتے جا رہے ہیں۔ہر موضوع پر زور آزمائی ہو رہی ہے۔ماضی قریب میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کو تلاش کرنا پڑتا تھا ۔وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔بچوں کے لیے جو ادیب لکھ بھی رہے تھے ان کی شناخت ادبِ عالیہ کے سبب تھی۔وہ تو ذائقہ بدلنے کے لیے کچھ لکھ دیا کرتے تھے اور پھر واپس اپنی ڈگر پر لوٹ جاتے تھے۔ اچانک سارا منظر ہی بدل گیا۔اب اردو کا تقریباً ہر دوسرا ادیب بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی تحریروں کو دکھا کر داد وصول کرنے میں منہمک ہے۔نئے لکھنے والوں کا تو حال اور بھی برُا ہے۔جسے کچھ بھی نہیں آتا وہ بھی قلم اُٹھا کر بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لکھتا ہے ۔ داد تو وصول کرنا چاہتا ہی ہے ساتھ ہی اعزازات بھی۔(جس میں ،میں خود بھی شامل ہوں)کہیں انبار کی شکل اختیار کرتی جارہی اردو ادبِ اطفال کی یہ تحریریں بچکانا تو نہیں ہیں؟ارشاد احمد صاحب بچوں کے لیے لکھے جانے والے ادب میں کچھ رہنمائی خطوط کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘ادبِ اطفال کی اہمیت و افادیت مد نظر رکھتے ہوئے ایسے رہنما خطوط وضع کیے جانے کی ضرورت ہے ،تاکہ بچوں تک پہنچنے والا مواد معیاری ہو،جو ان کی ذہنی نشوونما میں معاونت کر سکے۔’’
ادبِ اطفال کو معمولی اور آسان سمجھ کر کچھ بھی لکھنے کا خیال لے کر اِس میدان میں آئے ادباء کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ادبِ اطفال کو اچانک ملنے والے فوکس نے اردو ادبی دنیا کے برگدوں کو بھی متحرک کر دیا ہے۔وہ بھی اپنے تیر تلوار لے کر غیر متعلقہ میدان ِ ادب کی جانب دوڑ پڑے ہیں۔عالم یہ ہے کہ اب کسی ادیب کو ادیب الاطفال کہلانے میں شرم نہیں بلکہ فخر محسوس ہونے لگا ہے۔ بچوں کے نام پراعزات اور انعامات بٹورنے کی دوڑ میں ،ادیب الاطفال کی اِس بھیڑ میں معصوم قاری (بچہ)کہیں نظر آتا ہے!کیا بچوں کے ادب کے متعلق بچوں کی رائے معلوم کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اگر ایک ادیب نے کہہ دیا کہ یہ تحریر میں نے بچوں کے لیے لکھی ہے تو وہ تحریر کس بنیاد،کس معیار اور کس کسوٹی پر پرکھی جائے گی ؟یا پھر ادیب کے کہنے کے مطابق ادبِ اطفال میں شمار کر لی جائے گی؟ ریٹائرڈ ٹیچر عبدل ملک نظامی صاحب کا یہ کہنا کہ‘‘ہر لکھنے والا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کس کے لیے لکھ رہا ہے۔اگر کوئی ادیب کہتا ہے کہ وہ ادبِ اطفال لکھ رہا ہے تووہ تحریر ادبِ اطفال ہی ہے۔’’اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو کیاوہ تحریر جس میں عام فہم زبان نہ ہو، تلمیحات کا سہارا لیا گیا ہو، تشبیہہ و استعارات کی بھرمار ہو! اِس کے علاوہ تحریر میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہو جن سے بچے کا کبھی سابقہ بھی نہ پڑا ہو۔تو بھی کیا وہ تحریر ادبِ اطفال کے زمرے میں شامل کی جائے گی؟پرتھم ایجوکیشن سے منسلک فاؤنڈیشن فیاض احمد صاحب کو شکایت ہے کہ‘‘پریشانی یہی ہے کہ بچوں کی رائے کی عموماً کوئی اہمیت نہیں ہے۔اکژیہی ہوتا ہے کہ ہم بچوں کے ادیب ہیں اور ہم جو لکھتے ہیں وہ ادبِ اطفال ہو جاتا ہے۔بہت کم ادیب ہیں جوواقعی بچوں کے پاس جاتے ہیں اور اُن کی رائے لیتے ہیں۔’’وہ مانتے ہیں کہ بچوں کے پاس جانا ہی چاہئے ۔ادیب اور سینئرسیکینڈری اسکول کے اردو زبان کے سینئر استاد ارشاد احمد صاحب کا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ‘‘ایسا آج تک نہیں ہوا کہ بچوں کے ادب کے لیے بچوں سے اُن کی رائے لی گئی ہو۔اُن کی دلچسپی کے متعلق کوئی سوال پوچھا گیا ہوکہ آپ کو کیا پڑھنا اچھا لگتا ہے ،کیا پڑھنا اچھا نہیں لگتا۔اگر بچوں کی دلچسپی بھی معلوم کر لی جائے اور پھر اُس تناظر میں ادبِ اطفال لکھا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔’’
عام طور پر تو یہی کہا جاتا ہے کہ بچوں کے دل ودماغ میں جگہ بنانے کے لیے بچوں کے جیسی زبان بولنا پڑتی ہے، آسان ، اور عام فہم ۔ بچوں پر بھاری بھرکم الفاظ کے بم نہیں گرائے جاتے،معلومات کی بارش نہیں کی جاتی۔کیا ادبِ اطفال کی اہمیت و افادیت بیان کرنے کی غرض سے کوئی رہنمائی خطوط وضع کیے جانے کی ضرورت ہے؟
اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اردو ادبِ اطفال کے میدان میں لگاتار کام ہو رہا ہے۔گذشتہ تین چار برسوں میں منظرِ عام پر آنے والی کتابوں میں بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں کی تعداد میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔جو کہ خوش آئند ہے۔باوجود اِس کے سائنس اور جدید ٹکنالوجی کو بیان کرنے والی تحریریں ابھی بھی توجہ چاہتی ہیں۔کیا اردو ادبِ اطفال بچے کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے؟ ‘‘سراج عظیم صاحب کا ماننا ہے کہ‘‘آج کا بچہ تخیلاتی دنیا میں جینا نہیں چاہتا۔وہ منطق پر یقین نہیں رکھتا۔وہ حقیقت جاننا چاہتا ہے،کیوں اور کیسے ؟ آج کا بچہ کسی بھی شعبہ حیات میں سائنٹفک حقائق کی روشنی میں جواب چاہتا ہے۔’’یوں بھی ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آج کا بچہ جانتا ہے کہ چاند پر کوئی بڑھیا نہیں رہتی،وہ جادو کی حقیقت سے واقف ہے،وہ جانتا ہے کہ کوئی ٹوتھ فیری نہیں ہوتی۔ایسے بچوں کی دلچسپی کا سامان مہیا کرانا کسی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔قلم اُٹھانے سے قبل ادیب الاطفال کو یہ جان لینا چاہئے کہ یہ آج کے بچے ہیں یہ بہلائے نہیں جا سکتے۔دقت یہ ہے کہ موجودہ وقت میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کے سامنے وہی روایتی کینوس ہے، جس سے باہر وہ دیکھنے کا رسک لینے کا جوکھم نہیں اُٹھانا چاہتے۔یوں بھی اِن میں سے اکثر اُس دور کے تربیت یافتہ ہیں جنہوں نے اپنی دادی نانی سے روایتی مافوق الفطری ،بھوت پریت،جِن، پریوں اور شہزادے شہزادیوں کی طلسماتی کہانیاں سُنی تھیں۔وہ کوشش کرتے ہیں لیکن صفحہ قرطاس پر ابھرنے والی تحریر روایتی انداز کی چغلی کرتی ہے۔ لیکن ماہرِ تعلیم اشفاق عمر مالیگاؤں کا کہنا ہے کہ ‘‘کلاسیکی ادب کا فن اور جدید دور کے موضوعات کا انتخاب ادب اطفال کے معیار کو بلندی پر لے جانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔اور تب اردو ادبِ اطفال بھی دیگر زبانوں کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔’’شرط صرف اتنی ہے کہ کلاسیکی ادب سے روایتی موضوعات نہیں بلکہ فن کو لیا جائے۔مگر کیا کیا جائے! لکھنے والوں کا قصور بھی نہیں ہے کیونکہ بچپن میں سیکھی گئی باتیں عمر کے آخری دور تک ذہن کے کسی گوشہ میں محفوظ رہتی ہیں۔اِس لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ مستقبل کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اردو ادبِ اطفال تخلیق کیا جائے؟
سوال،سوال اور سوال
موجودہ دور کے بچے کا ذوق و شوق ،صلاحیت اور ذہنی سطح پر پہنچنے کے لیے ایک ادیب کو اُترنا نہیں بلکہ اپنی معلومات کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔اردو ادبِ اطفال میں وہ ادب کہاں ہے جو بچوں کی یادداشت میں اضافہ کرتا ہو،دماغی ورزش کراتا ہو،زندگی سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہو!کیا اردو ادبِ اطفال بچوں کو سوال پوچھنا سکھاتا ہے؟اُس کا حوصلہ بڑھاتا ہے یا بچے کے ذہن کو پرواز کے لیے پَر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے؟اکثراردو کا روایتی ادب بچوں کو فرمانبردار بنا کر خاموش ہو جاتا ہے۔سوال پوچھنے پر بچوں کو بدتمیز کہتا ہے۔بڑوں کی ہر بات پر سر جھکا کر جی ہاں کہنا سکھاتا ہے۔اردو ادب نے فرمانبردار تو پیدا کیے لیکن سوال پوچھ کر نئے راستوں پر ہمت اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا ادیب الاطفال فراموش کر گئے۔رہی سہی کسراسکول میں پہنچ کر اساتذہ پوری کر دیتے ہیں ۔ سوال پوچھنے والے بچے کو جھڑک کر بٹھا دیتے ہیں۔بہت جلد بچہ سمجھ جاتا ہے اور تجسس سے بھرا ذہن سوال کرنا بھول کر خاموشی میں ہی عافیت تلاش کر لیتا ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ اردو ادب نے سائنس کو ادب میں داخل ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔کیونکہ سائنس تو سوال پوچھنا سکھاتا ہے، کیوں ،کیا ،کیسے،کہاں،کب جیسے سوالوں سے گزر کر ہی ایک تجربہ، نتیجہ تک پہنچتا ہے۔کیا اردو ادب بچوں کو سوال پوچھتے ہوئے دیکھ سکتا ہے؟
توجہ طلب میدان
ادبِ اطفال ،ادب کا سب سے زیادہ سنجیدہ اور توجہ طلب میدان ہے۔یہ ادب صرف تفریح،لطیفے اور ہلکی پھلکی بات کرنے کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ ادب ِ اطفال مستقبل کی تیاری کی ذمّہ داری سنبھالتا ہے۔ہم جیسا مستقبل چاہتے ہیں اُس کی بنیاد یہیں رکھی جاتی ہے۔بنیاد میں رکھی گئی ایک ایک اینٹ ،گارا ،مٹی ،ریت ،پانی ،ہر چیز کا تناسب،مقدار کَل کھڑی ہونے والی بلند عمارت کی اونچائی کو سنبھالنے کی ذمّہ داری اٹھائیں گے۔اشفاق عمر کہتے ہیں کہ‘‘بچوں کے لیے لکھنے کے لیے اصول وضوابط طے ہونا چاہئے۔یوروپ میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے سے قبل باقاعدہ تربیت کا انتظام ہے۔اردمیں بھی کچھ رہنمائی اصول اور تربیت کا ،کورسز کاباقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔’’کیونکہ یہاں پر کی گئی معمولی سی غلطی پوری زندگی کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں ترقی کریں لیکن انہیں اُن کے پروڈکٹو عمر میں موبائل کی نیلی روشنی میں ڈبو کر شکایت کرتے ہیں کہ بچے پڑھنے پر توجہ نہیں دیتے۔ہمیں محاسبہ کی ضرورت ہے۔کیا والدین نے اپنے بچوں کو کچھ پڑھ کر سنایا تھا یا نیلی اسکرین پر ویڈیو دکھایا تھا؟
انٹرنیٹ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ موبائل کا استعمال کرنا سیکھا جائے،ورنہ موبائل ہمارا استعمال کرے گا۔ اِس لیے اب پہلے سے کئی گنا زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ارشاد احمد صاحب اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘اردو ادبِ اطفال دورِ حاضر کی ضرورت کو پورا نہیں کر پا رہا ہے تو یہ مستقبل کی ضرورت کو کیا پورا کرے گا۔اردو ادب کا تخلیق کار دیگر، زبانوں کے ادیبوں سے پچھڑ رہاہے۔وہ خود کو اپ ڈیٹ نہیں کر پا رہا ہے۔’’آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ کتابوں کے لیے خریداروں کے ساتھ ساتھ قاری پیدا کرنا ہوں گے۔جس کے لیے الماری میں سجی کتابوں میں بچوں کی دلچسپی کے سامان ڈالنا ہوں گے۔قلم اُٹھانے سے پہلے بچوں کی دلچسپی اور وقت کی ضرورت کو سمجھنا ہوگا۔بچوں کی دلچسپی معلوم کرنے کے لیے اُن کے ساتھ چلنا ہوگا۔ادب اور سائنس دونوں مل کر بچے کی تربیت اور تعلیم میں مددگار بن سکتے ہیں۔خیال رہے کہ ادیب الاطفال کا مقابلہ اب انٹرنیٹ کی چلتی پھرتی دنیا اور بچے کی مٹھی میں دبی نیلی روشنی سے ہے۔اِس لیے بچوں کو ادب کی جانب متوجہ کرنے کے لیے صرف تیاری نہیں بلکہ سخت اور شدید قسم کی تیاری کی ضرورت ہے۔ہر ادیب کوخود سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ ادب ،کتاب میں قید کرنے کے لیے نہیں بلکہ بچوں کے ہاتھوں سے ذہن و دل میں اترنے کے لیے لکھنا ہے۔تو اٹھائیے قلم اور بچوں کو اپنی مقناطیسی تحریر سے کتابوں تک کھینچ لائیے۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

دریائی جہلم جھیل ڈل میں آبی ٹرانسپورٹ چلانے کاخواب جلد ہی شرمندہ تعبیر ہوگا :میونسپل کمشنر سرینگر

Next Post

شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان

شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan