سرینگر،13ستمبر:
جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے بین الاقوامی اہمیت کے حامل سات ویٹ لینڈز (آبی پناہ گاہوں) کو رامسر سائٹس نامزد کرنے کے حوالے سے ان (آبی پناہ گاہوں) کے بارے میں انتظامیہ سے تفصیلی اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔
چیف جسٹس پنکج متل اور جسٹس پونیت گپتا کی ڈویژن بنچ کا کہنا ہے کہ ’’رامسر سائٹس آبی پناہ گاہوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے، ہم جموں و کشمیر انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان (آبی پناہ گاہوں) کے موجودہ اسٹیٹس کے بارے میں صفائی پیش کرے اور ان تمام سائٹس کے بارے میں چھ ہفتوں کے اندر مکمل رپورٹ پیش کرے۔‘‘
ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے بنچ نے اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل آف انڈیا – ٹی ایم شمسی، جو سیکریٹری، وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیات کی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں – سے بھی آبی پناہ گاہوں کے سلسلے میں ایکشن ٹیکن رپورٹ (اے ٹی آر) طلب کی ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات اس وقت سامنے آئیں جب وکیل ندیم قادری – جو amicus curiaeکیس میں عدالت کی معاونت کر رہے ہیں – نے کہا کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے مزید تین آبی پناہ گاہوں کو حال ہی میں بین الاقوامی اہمیت کا حامل تسلیم کیا گیا ہے اور رامسر کنونشن آن ویٹ لینڈز کے تحت ان تینوں پناہگاہوں کو رامسر سائٹس تسلیم کر لیا گیا۔
اس سے قبل جموں و کشمیر اور لداخ کی صرف چار آبی پناہ گاہوں کو بین الاقوامی اہمیت کا حامل تسلیم کیا گیا تھا اور انہیں رامسر کنونشن آن ویٹ لینڈز کے تحت رامسر سائٹس قرار دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر اور لداخ میں رامسر کنونشن آن ویٹ لینڈز کے تحت سات ویٹ لینڈز رامسر سائٹس میں شامل ہیں جن میں وادی کشمیر میں ہوکرسر، وُلر جھیل، شالہ بُگ اور ہائیگام جبکہ لداخ میں تسو موری اور تسو کار، اور جموں میں سورنسر – مانسر جھیلیں شامل ہیں۔
(اس خبر کا مواد ای ٹی وی بھارت سے لیا گیا ہے)