چٹان ویب ڈیسک
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ منکی پاکس کا نام تبدیل کر کے ’ایم پاکس‘ رکھ دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر ڈنمارک میں 1958 میں تحقیق کے لیے رکھے گئے بندروں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد اس کا نام منکی پاکس رکھا گیا تھا لیکن یہ بیماری دیگر جانوروں زیادہ تر چوہوں میں بھی پائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ کے ممالک میں منکی پاکس وائرس مئی میں ہم جنس پرست مردوں میں رپورٹ ہوا تھا۔اقوام متحدہ کی ایجنسی کی جانب سے بیان میں بتایا گیا کہ جب رواں برس کے اوائل میں منکی پاکس پھیلا تھا تو انٹرنیٹ پر نسل پرستانہ اور بدنما زبان استعمال کی گئی، جس کا کچھ کمیونٹیز کی جانب سے مشاہدہ کیا گیا اور ڈبلیو ایچ او کو رپورٹ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی ماہرین سے سلسلہ وار مشاورت کے بعد ڈبلیو ایچ او منکی پاکس کے متبادل کے طور پر ’ایم پاکس‘ کا استعمال شروع کرے گی، دونوں نام ایک سال تک استعمال کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پہلی بار اس بیماری کو 1970 میں کانگو میں دیکھا گیا تھا، اس کے بعد انسانوں میں اس کا پھیلاؤ مغربی اور وسطی افریقی ممالک تک محدود رہا تھا۔
یہ وائرس پھٹی ہوئی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔
بخار کے ظاہر ہونے کے بعد ایک سے تین روز کے اندر مریض کے جسم پر خارش پیدا ہو جاتی ہے، جو اکثر چہرے سے شروع ہوتی ہے اور پھر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتی ہے، بیماری کی دیگر علامات میں سر درد، پٹھوں میں درد، تھکن اور لیمفاڈینوپیتھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 24 جولائی کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم گیبریسیس نے کہا تھا کہ منکی پاکس بیماری کا تیزی سے پھیلاؤ عالمی صحت کی ہنگامی صورت حال کو ظاہر کر رہا ہے۔
