سرینگر،23جنوری:
اپنی پارٹی کے قائد سید محمد الطاف بخاری نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کی ڈیموگرافی اور یہاں کے عوام کے حقوق کی حفاظت کرنا اپنی پارٹی کا کلیدی ایجنڈا ہے۔یہ بات اُنہوں نے آج سرینگر میں پارٹی صدر دفتر پر ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقعے اُن کے پارٹی پارٹی کے جو سرکردہ لیڈران موجود تھے، اُن میں نائب صدر ظفر اقبال منہاس، نائب صدر عثمان مجید، نائب صدر جاوید مصطفی میر، جنرل سیکرٹری رفیع احمد میر، ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہلال احمد شاہ، میڈیا ایڈوائزر فاروق اندرابی، سٹیٹ کنونئر حاجی پرویز اور دیگر لیڈران شامل تھے۔
موصولہ بیان کے مطابق سید محمد الطاف بخاری نے جموں کشمیر میں حکومت کی جانب سے سرکاری اراضی اور کہچرائی سے لوگوں کو قبضہ ہٹانے کےلئے شروع کی گئی مہم پر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم یہ حقیقت جانتے ہیں کہ جموں کشمیر کے ہر علاقے میں لوگوں کے پاس سرکاری زمینیں اور کہچرائی وغیر ہے۔ یہ زمینیں دہائیوں بلکہ بعض معاملات میں ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے لوگوں کے زیر قبضہ ہییں اور اُنہوں نے ان پر رہائشی مکانات اور دُکانیں وغیرہ تعمیر کی ہوئی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اب اچانک دہائیوں بعد پلک چھکتے ہی اُن سے یہ زمینیں چھین لینا حکومت کا کوئی مناسب اقدام نہیں ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ سینکڑوں کنال اراضی پر قبضہ کرنے والے افراد اور گرہوں کے ساتھ کچھ نہ کیا جائے لیکن عام لوگوں، جن میں بھاری اکثریت مالی لحاظ سے پسماندہ لوگوں کی ہے، سے اُن کی زمینیں نہیں چھینی جانی چاہیں۔‘‘اپنی پارٹی کے قائد نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اُن لوگوں کو اراضی کے مالکانہ حقوق فراہم کریں، جن کے پاس ایل بی 6 کے تحت دہائیوں سے زمینیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’سرکار کا زرعی ایکٹ کے تحت لوگوں کو زمین کی منتقل کرنے کی اجازت دینا ایک قابل ستائش فیصلہ ہے لیکن ایل بی 6 کے تحت لوگوں کے پاس زیر قبضہ زمین کے حوالے سے بھی مالکانہ حقوق فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ زمینیں 60 سال سے زائد عرصے سے اُن کے پاس ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے پاس مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔‘‘
سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے زمینوں کی واپسی کے اقدام سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن اس کے باوجود کچھ شکایات سامنے آرہی ہیں، جن کے مطابق بعض علاقوں میں عام لوگوں سے اُن کی زمینیں چھینی جارہی ہیں۔
انہون نے کہا، ’’میں نے حال ہی میں نئی دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ اور جموں و کشمیر میں لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) سے ملاقاتیں کیں۔ دونوں شخصیات نے مجھے یقین دلایا کہ ریاستی زمین کو واپس لینے کے فیصلے سے عام لوگوں کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ تاہم اس کے باوجود جموں کشمیر کے مختلف علاقوں سے شکایات سامنے آرہی ہیں کہ لوگوں سے اُن کی زمینیں چھینی جارہی ہیں۔‘‘
اپنی پارٹی کے صدر نے بعض سرکاری افسران کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ افسران سرکاری زمینوں کی بازیابی کے عمل میں شاہ سے زیادہ تاج کا وفادر بننے کی کوشش میں عوام لوگوں کو ہراساں کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا میں ان افسران سے گزاراش کرنا چاہتا ہوں کہ عام لوگوں کو پریشان نہ کریں۔
سید محمد الطاف بخاری نے یقین دلایا کہ اپنی پارٹی عوام کو اُن کے حقوق دلانے کے حوالے سے اُن کےساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارا تعلق عوام سے ہے اور ہم پر صورت میں عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہمیں انتخابات میں عوامی مینڈیٹ حاصل ہوا تو ہم سارے معاملات جمہوری طریقے سے اور عوام کی منشا کے مطابق دُرست کریں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’وادی اور جموں کے لوگ زمین کے مسئلہ پر متحد ہیں اور ایک جیسی سوچ کے حامل ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے کہ کسی بھی بیرونی فرد کو یہاں ایک انچ بھی زمین لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کوئی بیرونی شخص جموں و کشمیر میں زمین پر قبضہ کر سکے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’جموں و کشمیر میں 88 فیصد زراعت اور 7 فیصد جنگلاتی زمین ہے۔ یہ ساری زمین محفوظ ہے۔ باقی 5 فیصد زمین صنعتی مقاصد کے لیے باہر کے لوگوں کو فراہم کی جا سکتی ہے۔ لیکن مستقبل میں کوئی بھی منتخب حکومت اس چیز کو بھی تبدیل کرسکتی ہے۔‘‘
