سرینگر/24جنوری:
وادی کشمیر میں قریب 60 فیصدی سے زائد زرعی اراضی اب ختم ہوچکی ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے علاوہ اینٹ کے بٹھوں اور دیگر کاموں کیلئے زرعی اراضی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس دوران ماہرین نے بتایا ہے کہ ہم لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو زرعی سرگرمیوں اور اناج سے محروم رکھنے کا سامنا خود ہی تیار کررہے ہیں۔
وادی کشمیر میں زرعی اراضی اب لفت ہونے کے قریب ہے۔ لوگ زرعی اراضی پر تعمیراتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں تعمیرکی جارہی ہیں۔ آہستہ آہستہ اراضی کاروباری مراکز میں تبدیل کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمیندار اپنی اراضی اینٹ بٹھ مالکان کو ایک کنال کے حساب سے سالانہ بیس ہزار روپے پر دیتے ہیں۔ زرعی اراضی پر سٹون کریشر اور دیگر سرگرمیاں چلائی جارہی ہے جس کی وجہ سے زرعی اراضی قریب ختم ہونے کو ہے۔ اس سلسلے میںماہرین ارضیات نے بتاتا کہ ایک انچ زمین کے بننے میں ایک ہزار برس لگ جاتے ہیں لیکن ہم اس کوکوڑیوں کے عوض بیچ کر تباہ کررہے ہیں۔ا نہوں نے کہا کہ زرعی سرگرمی کے بغیر کوئی بھی سرگرمی زرخیز زمین کو بنجر بنادیتی ہے۔ اور اس کو واپس زرخیز بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دانے دانے کے محتاج بنارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سائنس نے اتنی طرقی کی ہے لیکن کوئی بھی سائنسی ادارہ اب تک ایک بھی دانہ ان تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے کیوںکہ یہ قدرتی عمل ہے جس کیلئے زمین ہے ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے ہم اناج اْگاسکتے ہیں۔ اناج مشینوں میں نہیں اْگتا اور ناہی قدرتی عمل کے بغیر اس کیلئے کوئی اور عمل کامیاب ہوسکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ سرکار ی سطح پر اگرچہ زرعی اراضی کو بچانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم زمینی سطح پر اس کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے۔