سری نگر، 14 جولائی:
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر کبھی ملی ٹنسی کی آماجگاہ تھا لیکن آج یہ ٹورزم کی آماجگاہ بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں ہر سال جنوری کی پہلی تاریخ کو ہی باقاعدہ ہڑتال کلینڈر جاری کیا جاتا تھا لیکن اب یہاں سال بھر تعلیمی ادارے کھلے رہتے ہیں اور کاروبار بھی معمول کے مطابق چلتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک کی کال پر یہاں تعلیمی اداروں اور کاروبار کے بند رہنے کا دور ختم ہوا ہے۔
موصوف لیفٹیںنٹ گورنر نے ان باتوں کا اظہار جمعہ کے روز یہاں امر سنگھ کالج میں طلبا کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہا: ‘جموں وکشمیر کبھی ملی ٹنسی کا ہاٹ سپاٹ تھا لیکن آج یہ ٹورزم کا ہاٹ سپاٹ بن گیا ہے’۔ان کا کہنا تھا: ‘یہاں روز پڑوسی ملک کی کال پر اسکول، کالج بند ہوجاتے تھے جس کی وجہ سے آپ (طلبا) کو پڑھنے کا موقع نہیں ملتا تھا اب وہ دن ختم ہوگئے ہیں جب کسی کی کال پر یہاں تعلیمی ادارے اور بیوپار بند رہتا تھا’۔
مسٹر سنہا نے کہا کہ یہاں ہر سال پہلی جنوری کو ہی باقاعدہ ہڑتال کلینڈر جاری کیا جاتا تھا۔انہوں نے کہا: ‘یہاں ہر سال پہلی جنوری کو ہی باقاعدہ ہڑتال کلینڈر جاری کیا جاتا تھا اب یہاں سال کے 365 دن معمولات زندگی بحال رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہے’۔
منوج سنہا نے کہا کہ امن و شانتی کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ ایک کروڑ 88 لاکھ سیاح جموں و کشمیر کی سیر کے لئے آئے لیکن امسال یہ تعداد 2 کروڑ تجاوز کرنے کی توقع ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے لوگ امن کے ماحول سے مستفید ہو رہے ہیں اور آج نوجوانوں کو جہلم ریور فرنٹ پر گاتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے اور طلبا پڑھائی میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جموں و کشمیر ملک کی بڑھتی ہوئی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر نہ صرف زرعی شعبے میں بلکہ باغبانی کے شعبے میں بھی تیز رفتاری سی ترقی کر رہا ہےان کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر میں ہر دن پانچ سو سے زیادہ انٹرپرونیور اپنی زندگی کی شروعات کر رہے ہیں۔
منوج سنہا نے کہا کہ ہمیں بہت کم وقت میں سرمایہ کاری کے لا تعداد پرپوزل حاصل ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے ڈاکٹروں نے کورونا کے خلاف ویکسین تیار کرکے ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک اور جموں وکشمیر کو مزید مضبوط بنانے کے لئے طلبا کا رول انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ملک کے مستقبل کا انحصار طلبا پر ہی ہیں۔
