مانیٹر نگ ڈیسک
سپریم کورٹ آف انڈیا میں دفعہ370اور آرٹیکل 35(اے) کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں پر بدھ کو با ضابط طور پر سماعت کا آغاز ہوا ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا آئینی بنچ آج سے روزانہ کی بنیاد پرسماعت کررہا ہے۔
بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔11 جولائی کو بنچ نے 27 جولائی کو تحریری دلائل داخل کرنے اور مختلف فریقوں کی جانب سے سہولت کی تالیف کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔
پانچ ججوں کی بنچ نے کہا تھا کہ پیر اور جمعہ کے علاوہ اس کیس کی یومیہ بنیاد پر سماعت ہوگی۔ پیر اور جمعہ عدالت عظمیٰ میں متفرق معاملات کی سماعت کے دن ہیں۔ ان دنوں میں صرف نئی درخواستوں کی سماعت ہوتی ہے اور باقاعدہ مقدمات کی سماعت نہیں ہوتی۔عدالت نے درخواست گزاروں اور حکومت کے لیے ایک ایک وکیل مقرر کیا کہ وہ ریٹرن تیار کریں اور اسے 27 جولائی سے پہلے داخل کریں اور واضح کیا کہ مذکورہ تاریخ کے بعد کوئی بھی دستاویز قبول نہیں کی جائے گی۔
ایک پراسپیکٹس عدالت کو پورے کیس کا خلاصہ دیتا ہے تاکہ اسے حقائق کو تیزی سے سمجھنے میں مدد ملے۔بنچ نے کہا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے نوٹیفکیشن کے بعد جموں و کشمیر کی سابقہ ??ریاست کی حیثیت کے تعلق سے پیر کو مرکز کی جانب سے داخل کردہ حلف نامے کا پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے زیر سماعت آئینی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
عمر عبد اللہ کورٹ میں موجود
جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اس اہم کیس کی پہلی با ضابط سماعت پر سپریم کورٹ میں موجود رہے ۔انہوں نے سماعت سے قبل کہا ’ ہمیں انصاف ملنے کی امید ہے۔ ہم یہاں جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرف سے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پہلی بار میں یہاں یہ دیکھنے آیا ہوں کہ کپل سبل 5 اگست 2019 کے فیصلہ جات کو چیلنج کرنے والے کیس میں کیسے دلائل شروع کر یں گے‘۔
وکیل کپل سبل کے دلائل
عرضیوں پر دلائل دیتے ہوئے وکیل کپل سبل کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ یہ کہہ کر قرارداد پاس نہیں کر سکتاکہ وہ ‘آئین ساز اسمبلی’ ہے۔کوئی بھی پارلیمنٹ خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل نہیں کر سکتا،ہمیں تاریخ میں جانے کی ضرورت ہے،آرٹیکل 370 ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔‘اس اہم معاملے پر تاحال سماعت جاری ہے ۔