سری نگر/ وادی کشمیر میں میوہ باغات کے ساتھ ساتھ جہاں کسان اپنے کھیت کھلیانوں میں مختلف قسموں کی سبزیاں اگا کر اپنی روزی روٹی کے وسائل کو مضبوط کر رہے ہیں وہیں بعض علاقوں میں ایسے پھل اگانے کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے جن کے لئے وادی کے لوگ باہری ریاستوں پر ہی منحصر ہیں۔وسطی ضلع گاندربل میں کسان اپنی کھیت میں تربوزے اگا رہے ہیں جن کی یہاں کے مارکیٹ میں مانگ بڑھ رہی ہے۔
وادی کشمیر میں لوگ گرمیوں کے دوران تربوزے کھانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔سال گذشتہ کے ماہ رمضان کے دوران کشمیر میں روزانہ 5 کروڑ روپیے کے تربوز کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور ملک کی مختلف ریاستوں سے روزانہ 50 سے 60 ٹرک وارد وادی ہوتے تھے۔واکورہ گاندربل سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمان نامی کاشت کار نے یو این آئی کو بتایا کہ سال گذشتہ نقصان نہ ہوا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ کسان اپنے کھیت میں تربوز کی فصل اگاتے۔انہوں نے کہا: ‘سال گذشتہ نقصان ہوا، 15 سے 20 روپیہ فی کلو کے حساب سے مال بیچا جبکہ اس پر اس سے زیادہ خرچہ آیا تھا’۔ان کا کہنا تھا امسال پیداوار کم ہے لیکن مارکیٹ میں مانگ اچھی ہے اور ریٹ بھی بہتر ہے۔
موصوف کاشتکار نے کہا کہ متعلقہ محکمہ اگر کاشت کاروں کو جانکاری و دیگر ضروری مدد فراہم کرے گا تو یہ بھی ایک اچھی صنعت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘ایک کنال اراضی پر اگر تربوزے اگائے جائیں گے تو کم سے کم ایک لاکھ روپیے کی کمائی ہوگی’۔ان کا کہنا تھا: ‘اس کے لئے مارچ – اپریل میں زمین تیار کرکے بیج بوئے جاتے ہیں اور پھر فصل جولائی – اگست میں تیار ہوتی ہے جس کے بعد اس زمین پر دوسری فصل لگائی جاسکتی ہے’۔
عبدالرحمان نے کہا کہ امسال ہمارے علاقے کے کم سے کم ایک ہزار کوئنٹل تربوزے مارکیٹ میں آگئے۔انہوں نے کہا کہ مقامی مارکیٹ میں ہی یہ تربوزے فروخت ہوئے اور یہاں کے تربوزے زیادہ رس دار اور میٹھے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امسال باہر کی ریاستوں سے زیادہ مقدار میں یہ پھل نہیں آیا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مانگ زیادہ رہی۔موصوف کاشتکار نے متعلقہ محکمے سے اپیل کی کہ وہ کاشتکاروں کو اس کی پیداوار کو بڑھانے کے متعلق بھ بھر پور رہنمائی کرے۔