
ایک معذور شخص کی زندگی، نقل و حرکت سماعت وبصارت سے محروم چیلنجوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ان کا گھر سے لے کر تعلیم، پیشہ ورانہ اور دیگر شعبوں تک کا نظام رکاوٹوں سے گھرا ہوا ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی، نفسیاتی، ذہنی، معاشی اور سماجی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس وقت ہندوستان بھر میں جسمانی طور پرناخیز لوگ سب سے زیادہ مشکلات سے جو جھ رہے ہیں۔ہندوستان بھر کے 27 ریاستوں اور 9 یونین ٹیراٹریز میں تین کروڑ سے زائید افراد جسمانی طورپر ناخیز ہیں۔ جن میں خواتین کے مقابلے مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کنیاکماری سے جموں وکشمیر تک جسمانی طورپر ناخیز افراد لگ بھگ ایک جیسی مشکلات کا شکار ہیں۔ جموں وکشمیر کے سرمائی دارلحکومت جموں سے234کلومیٹر دور تحصیل منڈی آباد ہے۔ برفانی اور دیہی علاقع ہونے کے ساتھ ساتھ گھنے جنگلات پر محیط ہے۔تحصیل منڈی سے 4کلو میٹر دور منڈی لورن روڈ سے قریب تین کلومیٹر پلیرہ چکھڑی روڈ پر ایک خاندان آباد ہے۔ جو آٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس خاندان کے بارے میں پہلی بار جب 2018میں مقامی سماجی کارکن محمد یاسین شاہ سے ملاتب پتہ چلاکہ اب بھی ہمارے ملک میں جسمانی طور پرناخیز افراد کے ساتھ انصاف نہیں ہوتاہے۔ چرخہ فیچر سروس کے زریعہ ایک مضمون شایع ہونے کے بعد انتظامیہ متحرک ہوئی۔ موقع ملاحظہ کیاگیا۔ رات دن لگاکر ایک سال کے اندراندر 5معذور اور دو بزرگ افراد خانہ کی پنشن لگادی گئی۔بعد ازاں لوگوں نے بھی کچھ تعاون کیا۔ تاہم 2023 ماہ مئی میں پھر یہاں پر جانے کا موقع ملا۔
انہوں نے اپنی داستان کچھ اس طرح سنائی۔شبیر احمد خان جن کی عمر 23 سال ہے،نے کہاکہ اس وقت گھر میں ہم چھ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ایک بھائی جو شادی شدہ ہے وہ الگ رہ رہاہے اور ہم پانچ بھائی ایک بہن کے علاوہ بزرگ والد اور والدہ سمیت کل اٹھ کنبہ کے افراد ہیں۔جن میں والد یارمحمد خان اور ولدہ زیتون بیگم عمر رسیدہ ہیں۔ جبکہ محمد یونس عمر 27سال،تنویر احمد عمر 24سال،محمد ساگر عمر 18، سال محمد صابر عمر 21سال اورروبینہ کوثر عمر 30سال ہے۔ شبیر احمد نے بتایاکہ اس وقت ہمارے گھر میں ایک اکیلامیں ہی کمانے والا ہوں اور میں ہی ان سات افراد خانہ کی دیکھ ریکھ بھی کرتاہوں۔ گزشتہ چار ماہ سے پنشن بھی بند ہے۔ جبکہ روبینہ کوثر کا اب تک ادھار کارڈ ہی نہیں بن پایاہے۔ جس کی وجہ سے اس کی پنشن بھی شائد کٹ جایگی۔ یہاں سے منڈی پنشن کی ویری فکیشن کے لئے لے جانے اور لانے میں اتناپیسا لگ جاتاہے،جتنا ان کی پنشن ہوتی ہے۔لیکن اب وہ بھی نہیں ہے۔ میں نے قرض اٹھاکران کو منڈی لیکر ان کی ویریفکیشن کروانے کا عمل کروایاہے۔ حال بہت ہی بے حال ہے۔ ایک فرد کو منڈی لے جانے کے لئے ایک دن چاہے۔ وہ بھی ایک دن میں ایک کا کام نہیں ہوپاتاہے۔ مصیبت کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک یہاں پانی بھی نہیں ہے۔ پینے، نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے کاندھے پر پانی اٹھاکر لاناپڑتاہے۔ پھر یہاں پانی کا بندوبست، کھانے پینے کا بندوبست،روزی روٹی کا بندوبست، دوائی اور دیگر لوازمات کا بندوبست نہائیت ہی مشکل ہوچکاہے۔ یہ سارا قصہ نہیں ایک حقیقت ہے۔ ضلع پونچھ سے قریب 37کلو میٹر کی دوری پر واقع اس پریشان حال کنبہ کی خبر گیری لینے جب ہم پہونچے تو یقین ہواکہ اب بھی ہمارے اس ڈیجیٹل انڈیا میں زبان والوں، صحت والوں،جان پہچان والوں اور اثر رسوخ والوں کا ہی بول بالاہے۔
وال یہ ہے کہ امیروں کے شہر میں غریبوں کا جسم بھی باعث مصیبت کیوں ہے؟ کیا یہ ہمارے ملک اورسماج کا حصہ نہیں ہیں؟کیا یہ معذور ہیں اس لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تلملاتے رہے گے؟آخر ان کی پنشن کیوں بند ہے؟ سوال سوشل ویلفئیر افسر سے ہوا۔جواب آیا کہ ویریفکیشن مکمل نہیں ہوپارہی ہے۔لیکن یہاں ایک سوال اْٹھتا ہے کہ کیا کبھی افسر اپنی کرسی سے اٹھ کر اس غریب معذور کے گھر خود چل کر اس کا ویریفیکیشن کرنے نہیں جا سکتے ہیں؟ کیوں ہر بار معذور کو ساری مصیبت اٹھانی پڑتی ہے؟ پانی کے حوالے سے جب جونئیر انجینئیر سے پوچھاگیاتوجواب آیاکہ ہمارے پاس پائپیں نہیں تھیں اب ہیں لگ جاے گی۔ چند دنوں میں اہل ثروت سے سوال ہواتو جواب آیاکہ یہ ہم سے اوجھل تھے۔ کیا یہ سب کچھ درست ہے؟ویریفکیشن کی آڑمیں اپنی ناکامی کی سزاء ان ناخیز لوگوں کو دی جاے!کیا وجہ ہے کہ ایک طرف امیروں، پنچائیت نمائیندوں اور ملازمین کے گھر تو پانی صدیوں سے ایک بجاے دودو جانب سے دستیاب ہو جاتی ہے لیکن ان مجبور خاندان کے لئے محکمہ کے پاس پائیپیں نہیں ہوتی ہیں؟ سماجی انصاف کا دم بھرنے والی تنظیمیں اور اہل ثروت نظروں سے اجھل ہونے کا درست بہانہ کررہے ہیں۔جو ہوا وہ ہو چکاہے۔ اب آئیندہ تو سب کچھ عیاں ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ محکمہ سماجی بہبود اپنی ناکامی خود تسلیم کرتا اور وہ ان جیسے ہزاروں جسمانی طورپر ناخیز لوگوں کو پنشن فراہم کرنے کے کام میں تیزی لاتا۔ محکمہ جل شکتی بھی اپنی شکتی میں شکتی لائے اور وعدہ پوراکرے۔رہا سماجی اور فلاحی تنظیموں کا، وہ بھی اپنادست تعاون پیش کریں تاکہ حقیقی مقصد بھی ہوراہوسکے۔اس تحریر کو لکھنے کا مقصد کسی کو بے عزت کرنا نہیں ہے، کسی کی ناکامی کا ڈھنڈھورا پیٹنا نہیں بلکہ محکمہ اور تنظیموں کو ان کی ڈیوٹی یاد دلانا ہے، جو شائد کسی وجہ سے ان سے چھوٹ گئی ہے۔ کسی ضرورت مند خصوصاً معذور کو اس کا حق دلانا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔جب حکومتی اسکیم اس کی فلاہ کے لئے ہی بنائی گئی ہے تو یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کوئی معذور اس سے محروم نہ رہ جائے۔ معذور اور مجبور ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی وہ وقت ہے کہ آپ اور ہم صحت وتندرست ہیں تو ان جسمانی طورپر ناخیز لوگوں کی داد رسی کریں کیونکہ ”یہی ہے عبادت یہی دین ایماں،کہ کام آے دنیامیں انساں کے انساں“۔(چرخہ فیچرس)
