سرینگر/ تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا اور خاص طور پرسیمنٹ، لوہا، کے ڈی لکڑی، ریت، باجری، سٹون کریشر، اور نالہ موکھکی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوگیا ہے جس سے ٹھیکیداروں اور عام لوگوں میں کافی تشویش پائی جارہی ہے۔ ٹھیکیداروں اور مقامی لوگوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کو چیک کیا جائے اور اس معاملہ کا حل نکالا جائے کیونکہ ایک طرف غیر قانونی کان کنی کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف دوگنی قیمتوں میں میٹریل بیچا جارہاہے۔ تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے جہاں شہریوں کیلئے اپنا گھر بنانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
ایک سال کے دوران تعمیراتی میٹریل کی قیمتیں پچیس سے تیس فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔جہاں مرغ، گوشت، انڈے، بیکری، دوائی، پنیر اور ہر قسم کی سبزیاں انتہائی سخت مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں وہی پر سرکاری سطح پر واضح کسی بھی ریٹ لسٹ یا مقرر قیمت پر ضروریات زندگی کی کوئی اھم چیز متعلقہ دکاندار فروخت نہیں کرتے حد یہ کہ سیمنٹ، کے ڈی لکڑی، ریت، باجری، سٹون کریشر، اور نالہ موکھ جیسی تعمیرات کیلئے سب سے ضروری چیزیں چوگنا ریٹ پر فروخت کی جاتی جبکہ سرکاری یا پرئیویٹ کسی بھی قسم کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے ریت پتھر، باجری، کریشر اور عمارتی لکڑیاں اتنی مہنگی کی گئی کہ انسان کوئی تعمیری کام شروع نہیں کرسکتا۔ اینٹ بٹھ مالکان کے بعد لکڑی، ریت باجری والوں نے یہ موقف پیش کرنا شروع کیا ہے کہ سرکار انھیں رائلٹی کے نام پر لاکھوں روپے ایڈوانس لیتی ہے لہذا وہ غریب عوام کی جیبیں کاٹتے رہتے ہیں غلام نبی یتو نامی ناگام چاڈورہ کے شہری نے بتایا کہ معمولی رائیلٹی ادا کرتے ہیں یہ کریشر اور ریت فروخت کرنے والے ایک طرف ندی نالوں کو برباد کرتے رہتے ہیں دوسری جانب کوئی رعایت دئیے بغیر کئی برسوں کے قیمتوں کا ریکارڈ ٹوڈتے ہوئیے دن دھاڈے غریب کشمیری عوام کا خون چوستے رہتے ہیں جبکہ ہمارے زمہ داران انھیں راہ راست پر لانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔
صورہ سرینگر کے ایک شہر ی محمد رفیق بتایا کہ 2021میں انھوں نے مکان کی تعمیر شروع کی تاہم جیسے جیسے تعمیراتی کام آگے بڑھا مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ ان کے مطابق انھوں نے مکان کا ڈھانچہ کھڑا کر کے پلستر کا کام تو ختم کر لیا ہے تاہم ان کے پاس موجود وہ ساری جمع پونچی مکان کا ڈھانچہ کھڑے کرنے اور پلستر میں خرچ ہو گئی۔انھوں نے بتایا کہ فی الحال مکان پر تعمیراتی کام رکا ہوا ہے۔ محمد رفیق تعمیراتی سامان کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے کافی فکر مند ہیں کیونکہ ان کا برسوں پرانا ’اپنے گھر‘ کا خواب فی الحال پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
ساجد رسول جو میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور کرائے کے مکان میں گذشتہ5 سال سے زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ انھوں نے بھی کچھ ماہ پہلے اپنے گھر کی تعیمر شروع کی۔وہ بتاتے ہیں کہ مالی وسائل کی وجہ سے اپنے چار سو گز کے پلاٹ پر پوری تعمیر نہیں کر سکتے تھے اس لیے انھوں نے اس پلاٹ کے ایک چھوٹے سے حصے پر تعمیر شروع کی۔ چار دیواری بنانے اور آئرن گیٹ لگانے کی دیر تھی کہ اچانک سے تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ساجد رسول نے تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے اور اس کی وجہ سے مکانوں کی تعمیراتی لاگت میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک امید تھی کہ ان کا اپنا مکان چاہے چھوٹا ہی سہی بن جائے گا تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ اس میں منتقل ہو کر کرائے سے نجات حاصل کر لیں گے۔ تاہم تعمیراتی لاگت میں اضافے کی وجہ سے یہ امید دم توڑتی نظر آرہی ہے۔
