سری نگر،9 اگست(یو این آئی)حریت چیرمین میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق نے حکومت ہند کی جانب سے پارلیمنٹ میں ترمیمی وقف بل 2024 کے لانے کے عمل کو مسلمانان ہند کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے لئے بھی ہر لحاظ سے پریشان کن قراردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اب اس بل کو باضابط قانونی شکل دینے کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کیا اور اگر ضرورت پڑی تو اس حساس معاملے پر ہم جلد ہی متحدہ مجلس علما کا اجلاس طلب کرکے اپنا لاٗحہ عمل طے کریں گے۔
مرکزی جامع سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران میرواعظ نے کہا کہ اس ترمیمی وقف بل میں کئی متنازع دفعات تجویز کی گئی ہیں جس کے تحت اب غیر مسلم بھی وقف بورڈ کا حصہ ہو سکتے ہیں اور کسی غیر مسلم کو بھی وقف بورڈ کاچیف ایگزیکٹیو آفیسر بنایا جاسکتا ہے جبکہ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی کو وقف کا ذمہ دار بنانے کیلئے کم از کم پانچ سال کیلئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔
میرواعظ نے کہا ہماری بیشتر مساجد، درگاہیں، خانقاہیں اور امام باڑے وقف بورڈ کے تحت آتے ہیں اور بہت سی وقف مساجد سینکڑوں سال پرانی ہیں اور کچھ کے پاس اس کو ثابت کرنے کیلئے ضروری دستاویزات بھی نہیں ہیں تو کیا ان سب کو سرکاری املاک تصور کیا جائیگا؟۔ دراصل حکومت اس طرح کے قوانین سے وقف کے بنیادی مقاصد کو ہی ختم کرنا چاہتی ہے۔
میرواعظ نے کہا کہ وقف اراضی کی حتمی حیثیت کے حوالے سے اس بل میں ضلع کلیکٹر یعنی ڈی سی کو اختیارات حاصل ہونگے اور وہی اس بات کا مجاز ہوگا کہ یہ زمین سرکاری ہے یا وقف جائیداد ہے۔ اصل میں بدقسمتی سے اس طرح کے قوانین سے حکومت کا ایجنڈا مسلمانوںکو کمزور کرنا، طاقت سے محروم کرنا اور انہیں اپنے انتخابی مقاصد کیلئے Polarizing agent کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
میرواعظ نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں حکومت ہندوستان کی جانب سے کئے جارہے اقداما ت سے چوکنا رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے قومی اور ملی مفادات کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کیلئے حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور اگر حکومت ہندوستان ان امتیازی قوانین کو پاس کرتی ہے تو جموں وکشمیر کے مسلمان اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔