سری نگر، 06 اپریل:
کپواڑہ ضلع کے ٹیٹوال گاؤں میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ واقع مسلمان دیہاتیوں نے شاردا پیٹھ بیس کیمپ کی زمین 75 سال بعد ہندوؤں کے حوالے کر دی ہے۔
شاردا پیٹھ 1947 میں تقسیم سے پہلے ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے سیکھنے کا ایک قابل احترام مقام رہا ہے۔
شاردا پیٹھ، دیوی سرسوتی کا ایک کشمیری نام ہے جو اب پاکستان زیر انتظام کشمیر کے شاردا ضلع میں ہے، تاہم، اس کا بیس کیمپ 300 کلومیٹر دور کپواڑہ ضلع کے ٹیٹوال گاؤں میں واقع ہے۔
یہاں سالانہ یاترا ہوا کرتی تھی اور آخری یاترا 1948 میں ایک کشمیری سنت گرو سوامی نند لال جی نے کی تھی۔ تب سے کشمیری پنڈت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) میں شاردا پیٹھ کی یاترا کو دوبارہ کھولنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
ٹیٹوال گاؤں کے لمبردار ضمیر احمد نے کہا کہ 1947 سے پہلے ایل او سی پر ایک چھوٹا گرودوارہ اور دھرم شالہ موجود تھا جو شاردا یاتریوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر کام کرتا تھا۔
“ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا ہے کہ ٹیٹوال تقسیم سے پہلے تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا اور یہاں سکھوں کا بڑا کاروبار تھا۔ مسلمان اور ہندو بھائیوں کی طرح رہتے تھے لیکن بدقسمتی سے تقسیم نے برادریوں کو متاثر کیا۔” انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ تھا لیکن جب قبائلی (قبالی) آئے تو انہوں نے نہ صرف دھرم شالہ اور مندر بلکہ مسلمانوں کی املاک کو بھی تباہ کیا۔
ستمبر 2021 میں جب ہندو سالانہ یاترا کے لیے آئے تو یہ زمین ستر سال سے زائد عرصے کے بعد ان کے حوالے کر دی گئی۔سیو شاردا کمیٹی کشمیر کے سربراہ اور بانی رویندر پنڈتا نے بتایا کہ وہ شاردا مندر اور شاردا ریسرچ سینٹر کو ایک بین الاقوامی مرکز کے طور پر ابھارنے کی کوشش کررہےہیں اور اسے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی منظر پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا ایک مقصد خطے کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے جو 1947 سے رہ گیا ہے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کا ذریعہ بننا ہے۔ (کے این ایس)