سرینگر،25جون:
نیشنل کانفرنس جموں وکشمیر کو موجودہ دلدل سے نکالنے ، یہاں کے عوام حقوق کی بحالی اور ریاست کی انفرادیت، شناخت اور صدیوں کے بھائی چارے کو قائم و دائم کی کوششوں میں برسرجہد ہے اور انشاء اللہ ہم تینوں خطوں کے عوام کے اشتراک اور تعاون سے موجودہ چیلنجوں میں سرخرو ہوکر اُبھریں گے۔
ان باتوں کا اظہار پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر نے آج بالہامہ میں منعقدہ بلاک سونہ وار کے یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کنونشن سے پارٹی کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، وسطی زون صدر علی محمد ڈار، ضلع صدر سرینگر پیر آفاق احمد اور سینئر لیڈر حاجی غلام قادر پردیسی اور دیگر لیڈران نے بھی خطاب کیا۔
ساگر نے کہا کہ 5اگست2019کے فیصلے لداخ، جموں اور کشمیر کے لوگوں نے مسترد کئے ہیں اور گذشتہ 3سال سے آئے روز جو نت نئے قوانین لائے جارہے ہیں ان کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
تینوں خطوں کے عوام نے مرکزی حکومت کے غیرآئینی اور غیر جمہوری فیصلوں کو مسترد کیا ہے اور اپنے حقوق کی بحالی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تینوں خطوں کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی اسی میں ہے کہ ہم سب آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرکے مل جھل کر اپنے حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ اگر ہم اس وقت بھی اتحاد کا مظاہرہ کرکے تینوں خطوں کے عوام کے حقوق کیلئے نہیں لڑیں گے تو آنے والے نسلیں ہمیں معاف نہیںکریں گی۔ ساگر نے کہا کہ جو افسر شاہی نظام اس وقت جموں وکشمیر پر مسلط کیا گیا ہے اس میں یہاں کے پشتینی باشندوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے ، نوکریوں کی فراہمی سے ٹھیکوں کی اجرائی تک ، سب باہری لوگوں کو دیا جارہاہے۔ باہر کے اُمیداروں کو نوکریاں فراہم کی جارہی ہیں اور مقامی نوجوانوں کو ان دیکھا کیا جارہاہے، حد تو یہ ہے کہ یہاں کی ڈاکٹری سیٹوں میں بھی اب 50فیصد باہری ریاستوں سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کو دینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے کے بینک میں بھی بھرتی عمل کے وقت بھی انتقام گیری سے کام لیا گیا اور سب انسپکٹروں کی بھرتی میں کنبہ پروری، اقرباء پروری اور کورپشن کے تمام ریکارڈ مات کئے گئے ۔ ساگر نے کہا ہے ایسی صورتحال میں یہاں کا نوجوان مکمل طور پر نااُمید ہوگیا ہے اور اُسے اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے نوجوان اب باہری ریاستوں میں تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کمانے کیلئے جانے بھی گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہاں مسلمانوں خصوصاً کشمیریوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ اب بھارت وہ بھارت نہیں رہا جہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل تھی۔ موجودہ بھارت گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا ، آج حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کے آزان پڑھنے، زمینوں پر نماز ادا کرنے، گوشت کھانے، دھاڑی رکھنے اور خواتین کا پردہ کرنے پر اعتراضات کئے جارہے ہیں اور مرکز میں براجمان حکمران جماعت ان مسلم دشمن سرگرمیوں کی خاموشی تماشائی بن کر اس بدترین عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کی مرتکب ہورہی ہے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے کہا کہ 5اگست2019سے نئی دلی اور مقامی حکومت تعمیر و ترقی کے جو دعوے اور اعلانات کررہے ہیں وہ سب جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ3برسوں کے دوران یہاں کوئی کام نہیں ہوا، جو بھی پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیںوہ سابق حکومتوں کے دوران شروع کئے گئے تھے ۔حکومت کے امن و امان کے دعوے بھی زمینی صورتحال کے حقائق سے میل نہیںکھاتے۔
موجودہ دور میں عام لوگوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ لوگ نہ صرف عدم تحفظ کے شکار ہیں بلکہ روز مرہ کے مشکلات سے بھی دوچارہیں۔ ایسے میں ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم لوگوں کے مسائل و مشکلات ہر سطح پر اُجاگر کریں اور ان کا سدباب کرانے کی حد درجہ کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کا یہی اصول رہا ہے اور ہمیں اپنے سنہری اصولوں پر ہر حال میں قائم و دائم رہنا چاہئے۔کنونشن کا انعقاد انچارج کانسچونسی اور نائب صدر صوبہ احسان پردیسی نے کیا تھا جبکہ یوتھ نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر سلمان علی ساگر، خواتین ونگ کی صوبائی صدر انجینئر صبیہ قادری، صوبائی ترجمان عفراء جان، صدرِ بلاک عبدالمجید بٹ کے علاوہ پارٹی لیڈران ڈاکٹر سعید مخدومی، قیصر جلالی، عائشہ جمیل بھی موجود تھے۔
