سرینگر: اپنی پارٹی کے سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے کہا ہے کہ این سی اور پی ڈی پی کی تاریخ دھوکہ دہی اور فریب کاریوں سے بھری پڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پارٹیوں کے لیڈروں نے ہمیشہ سادہ لوح لوگوں کو فریب اور دھوکہ دیکر یہاں اپنا خاندانی راج مضبوط سے مضبوط کیا ہے۔
سید محمد الطاف بخاری بے یہ باتیں آج جنوبی ضلع اننت ناگ کے پہلگام میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
اپنی پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سیاسی خانوادے سالہا سال سے جموں کشمیر اور یہاں کے عوام کے مفادات کو زک پہنچاتے آئے ہیں۔ انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو ان روایتی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کےاستحصال سے نجات حاصل کریں۔
ماضی میں پی ڈی پی کے ساتھ اپنے اور اپنے ساتھیوں کی وابستگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، سید محمد الطاف بخاری نے کہا، ’’ہم نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی تھی تاکہ این سی کی دہائیوں پر محیط خاندانی حکمرانی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ پارٹی بذات خود یہاں ایک اور خاندان کا راج قائم کرنے جارہی ہے۔ پی ڈی پی کے بانی رہنما کا دعویٰ تھا کہ وہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور این سی کی خاندانی حکومت کے خلاف ہیں۔ ہم نے اُن پر بھروسہ کیا لیکن بعد میں ہم یہ دیکھ کر دھنگ رہ گئے کہ اس دُنیا سے رخصت ہوتے ہوئے وہ پارٹی کی باگ ڈور اپنی بیٹی کے سپرد کرنا نہیں بھولے۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ایک اور سیاسی خاندان قائم ہو چکا ہے۔ اب، ان کی بیٹی اپنی صاحبزادی کو یہ خاندانی پارٹی سپرد کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔‘‘
بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے طویل یارانہ کے بارے میں، سید محمد الطاف بخاری نے بات کرتے ہوئے کہا، ’’سال 2014 کے اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد، میں نے مفتی صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنے کا من بنالیا تھا۔ حالانکہ عوام سے یہ کہہ کر ووٹ لئے گئے تھے کہ اگر بی جے پی کو جموں کشمیر میں اقتدار سے دور رکھنا ہے تو پی ڈی پی کو ووٹ دو۔ میں نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ یہاں تک کہ میں نے کچھ سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ لیکن وہ فیصلہ کرچکے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگ پی ڈی پی حکومت میں طاقت کے بے جا استعمال سے ہوئیں بچوں کی اموات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’دو سو سے زیادہ لوگ مارے گئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے، اور ہزاروں لڑکے اور لڑکیاں پیلیٹ گن کے استعمال سے نابینا ہو گئے۔ چھوٹے بچوں کی حفاظت میں ناکامی کے لیے معذرت خواہ ہونے کے بجائے، وزیر اعلیٰ صاحبہ نے ان ہلاکتوں کا یہ کہہ کر جواز پیش کرنے کی کوشش کی کہ ’’کیا یہ بچے اپنے لیے چاکلیٹ اور دودھ لینے گھروں سے نکلتے تھے۔‘‘ یہاں کے لوگ ان بے رحم الفاظ کو لوگ کیسے بھول سکتے ہیں؟ ‘‘
این سی کے فریب کاریوں پر بات کرتے ہوئے سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ یہ جماعت گزشتہ ستر سالوں سے اپنے گمراہ کن بیانیوں اور جذباتی نعروں کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’این سی لیڈروں کی دھوکہ دہی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ کشمیریوں نے جس پارٹی پر بھروسہ کیا تھا وہ مسلم کانفرنس تھی جو 1930 کی دہائی میں قائم ہوئی تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس کے کہنے پر پارٹی کا نام مسلم کانفرنس سے بدل کر نیشنل کانفرنس رکھا گیا۔ پارٹی کا نام بدلنا اس کے لیڈروں کی دھوکہ دہی کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد، انہوں نے لوگوں کو ’رائے شماری‘، ’اٹانومی‘، اور اس طرح کے پُر فریب نعروں سے اپنے قابو میں رکھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس جماعت کے لیڈران اقتدار کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’’ایک زمانے میں وہ کانگریسی لیڈروں اور کارکنوں کو ’’گندی نالی کے کیڑے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ انہوں کانگریس کے کارکنوں کا اس حد تک سماجی بائیکاٹ کرایا کہ لوگ ان کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوتے تھے۔ لیکن آج اقتدار کی حوس میں این سی لیڈران اسی کانگریس کو گلے لگائے ہوئے ہے۔‘‘
سید محمد الطاف بخاری نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ خود کو ان روایتی پارٹیوں خصوصاً سیاسی خاندانوں سے نجات دلائیں۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ جب اپنی پارٹی کو عوامی منڈیٹ حاصل ہوگا تو تمام اہم عوامی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرائے گی۔ افسپا کو منسوخ کرائے گی۔ جیلوں میں بند نوجوانوں کو رہا کرائے گی۔ ملازمتوں کے خواہشمندوں اور پاسپورٹ کے متلاشیوں کو پولیس ویریفکیشن رپورٹس بغیر کسی پریشانی فراہم کرنا یقینی بنائے گی۔
اس موقع پر پارٹی کے جو سرکردہ لیڈران موجود تھے، اُن میں پارٹی کے جنرل سکریٹری رفیع احمد ایم آئی، صوبائی صدر محمد اشرف میر، ایڈیشنل جنرل سکریٹری ہلال احمد شاہ، ضلع صدر اننت ناگ، عبدالرحیم راتھر، یوتھ لیڈر عماد میر، فیاض احمد قادری ، محمد یوسف ملک، بلال احمد ترکی، سید خادم شاہ، بشیر احمد خان، اعجاز احمد، مختار بٹ، اور دیگر لیڈران شامل تھے۔