سرینگر : جموں کشمیر میں طویل عرصے سے انتظار کیے جانے والے اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر ہنگامہ آرائی کے بیچ یونین ٹیریٹری (جموں کشمیر) میں بلدیاتی انتخابات میں بھی تاخیر ہو رہی ہے، کیونکہ بلدیاتی اداروں میں دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ریزرویشن ابھی بھی زیر عمل ہے۔ جموں و کشمیر میں آخری بلدیاتی انتخابات 2018 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے منعقد ہوئے تھے، جب جموں کشمیر ایک ریاست تھی۔
مرکز کے زیر انتظام علاقے میں نچلی سطح کے نمائندوں کی پانچ سالہ مدت نومبر 2023 میں ختم ہوئی، لیکن میونسپل وارڈز کی حد بندی اور او بی سی کے لیے ریزرویشن کی وجہ سے انتخابات وقت پر منعقد نہیں کیے گئے۔ مرکز میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے رواں برس فروری ماہ میں پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر لوکل باڈیز قانون (ترمیمی بل)-2024 کو منظور کیا۔
جموں کشمیر میں دو میونسپل کارپوریشنز – سرینگر اور جموں- اور 76 میونسپلٹیز ہیں۔ سرکاری ذرائع نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ریزرویشن کی مشق میں وقت لگے گا کیونکہ ریزرویشن اور میونسپل قوانین میں ترمیم کے بعد 46 نئی ذاتوں کو ریزرویشن کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ بلدیاتی اداروں میں او بی سی کی شمولیت کا تعین جموں و کشمیر سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کمیشن (JKSEBCC)کرے گا۔
جسٹس (ریٹائرڈ) جی ڈی شرما کی سربراہی میں ایک کمیشن – جس میں سابق بیوروکریٹ روپ لال بھارتی اور سابق آئی پی ایس افسر منیر خان بھی شامل تھے، پینل کو مارچ 2020 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس پینل کی تین سالہ مدت مارچ میں ختم ہوئی، تاہم ایل جی انتظامیہ نے او بی سی ریزرویشن کی تکمیل تک اس (پینل) کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی۔
ذرائع نے بتایا کہ کمیشن نے میونسپل وارڈز میں او بی سی کو شامل کرنے کے لیے رپورٹ بنانے کی مشق ابھی شروع نہیں کی ہے۔ منیر خان نے بتایا ’’کمیشن کو میونسپلٹیز اور دو کارپوریشنز میں او بی سی ریزرویشن کی مشق شروع کرنے کے بارے میں حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی نوٹس یا اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔‘‘
ایک جانب جہاں ریزرویشن کا انتظار کیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب حد بندی کی مشق بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہے۔ حد بندی میں وارڈز میں رائے دہندگان کی یکساں تقسیم شامل ہے جس میں وارڈز اور ان کی حدود میں توسیع کیے جانے کا امکان ہے۔ ریاستی الیکشن کمشنر، بی آر شرما، نے ڈپٹی کمشنرز، جو مرکز کے زیر انتظام علاقے کے 20 اضلاع میں ضلعی انتخابی افسران بھی ہیں، کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس عمل کو تیز کریں تاکہ ان اداروں کے انتخابات اس سال کے آخر تک ہو سکیں۔
شرما نے منگل کو ڈپٹی الیکٹورل آفیسرز (ڈی ای اوز) کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور انہیں وارڈز کی حد بندی، مسودہ تجاویز کی اشاعت میں تیزی لانے کی بھی ہدایت کی۔ شرما نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں امید ہے کہ حد بندی 45 دنوں کے اندر مکمل ہو جائے گی کیونکہ 12 اضلاع میں میونسپل اداروں کے لیے تجاویز کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور صرف آٹھ باقی ہیں۔ اور ان آٹھ اضلاع میں بھی آخری مراحل کا کام چل رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’بعض اضلاع پہلے ہی رائے دہندگان کے دعووں اور اعتراضات وغیرہ کے لیے مسودہ تجاویز کو پبلک ڈومین میں ڈالنے کے لیے پبلک نوٹیفکیشن جاری کرنے کے عمل میں ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ حد بندی کے بعد ایس ای سی او، بی سی ووٹرز کے لیے انتخابی فہرستوں اور وارڈ ریزرویشن پر نظر ثانی کا عمل انجام دے گا، جو او بی سی کمیشن کی ریزرویشن کی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ شرما نے کہا: ’’ہم انتخابی فہرست پر نظر ثانی کے عمل کے بعد حد بندی کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ منتخب بلدیاتی اداروں کی تشکیل کے لیے انتخابات کرائے جائیں۔‘‘
جموں کشمیر میں سیاسی جماعتیں اسمبلی اور اب بلدیاتی اور پنچایت اداروں کے انتخابات میں تاخیر کرنے پر بی جے پی حکومت کی سخت تنقید کر رہی ہیں۔ پی ڈی پی کے ترجمان ڈاکٹر ہربخش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’انتخابات میں تاخیر تعمیر و ترقی اور خاص طور پر منتخب اداروں میں عوام کی نمائندگی کو متاثر کر رہی ہے، تاخیرکا یہ عمل دراصل جموں و کشمیر کے لوگوں کو جمہوریت سے محروم کر رہا ہے۔‘‘
ادھر، نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی نے کہا کہ ’’جموں و کشمیر انتظامیہ کو جلد از جلد حد بندی اور ریزرویشن کی مشق کو تیز کرنا چاہیے اور اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی منعقد کروانے چاہیے، جو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ستمبر سے پہلے ہونے چاہئیں۔‘‘ یوگا کا عالمی دن منانے کے لیے کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوں گے جبکہ ریاست کا درجہ بھی بحال کیا جائے گا۔‘‘ لیکن وزیر اعظم نے اس حوالہ سے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔