حیدرآباد: اقوام متحدہ کے مطابق اقلیت ایک ایسی کمیونٹی ہوتی ہے جس میں سماجی، سیاسی اور معاشی غلبہ نہ ہو اور وہ کسی مخصوص ملک میں آبادی کےاعتبار سے کم ہو۔ یوم اقلیتی حقوق ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے آزادی اور مساوی مواقع کے حق کو برقرار رکھتا ہے اور ان کے حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرتا ہے۔
کمیشن کو 1992 کے قومی کمیشن برائے اقلیتی ایکٹ کے نفاذ کے ساتھ ایک قانونی حیثیت فراہم کی گئی تھی، اور اسے قومی کمیشن برائے اقلیتوں کا نام دیا گیا تھا۔ پہلا قومی کمیشن 17 مئی 1993 کو وزارت بہبود کی طرف سے 23 اکتوبر 1993 کو ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے قائم کیا گیا تھا۔ پانچ مذہبی برادریوں۔۔ مسلم، عیسائی، سکھ، بدھ اور پارسی کو اقلیتی درجہ فراہم کیا گیا۔ جینوں کو 27 جنوری 2014 کو اقلیت میں شامل کیا گیا تھا۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، چھ مذہبی اقلیتی برادریاں آبادی کا 19.3 فیصد ہیں۔
اقلیتوں کے قومی کمیشن کی تاریخ:
1978 میں ہندوستان نے اقوام متحدہ سے بھی بہت پہلے اقلیتوں کے لیے ایک قومی کمیشن (این سی ایم) کے قیام کا تصور پیش کیا جو 1992 میں شروع ہوا۔ کمیشن کے قیام کا تصور 12 جنوری 1978 کی وزارت داخلہ کی قرارداد میں کیا گیا تھا، جس میں خاص طور پر انہوں نے کہا تھا کہ، آئین میں فراہم کردہ تحفظات اور نافذ قوانین کے باوجود، اقلیتوں میں عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا احساس برقرار ہے۔
سیکولر روایات کے تحفظ اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے مرکز اقلیتوں کے لیے فراہم کردہ تحفظات کے نفاذ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ آئین، مرکزی اور ریاستی قوانین اور وقتاً فوقتاً بیان کی جانے والی سرکاری پالیسیوں اور انتظامی اسکیموں میں اقلیتوں کے لیے فراہم کردہ تمام تحفظات کے نفاذ کے لیے موثر ادارہ جاتی انتظامات کی فوری ضرورت ہے۔ 1984 میں، اقلیتی کمیشن کو وزارت داخلہ سے الگ کر کے وزارت بہبود کے تحت رکھ دیا گیا۔
کمیشن کے کام:
1- یونین اور ریاستوں کے تحت اقلیتوں کی ترقی کی پیشرفت کا جائزہ لینا
2- آئین میں فراہم کردہ اقلیتوں کے تحفظات اور پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کے کام کی نگرانی کرنا
3- اقلیتوں کی بہبود کے لیے وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کو یقینی بناتا اور اقلیتی برادریوں کے لیے پروگرام فعال کرنا
4- مرکزی یا ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کے موثر نفاذ کے لیے سفارشات پیش کرنا
5- اقلیتوں کے حقوق اور تحفظات سے محرومی سے متعلق مخصوص شکایات کا جائزہ لینا اور ایسے معاملات کو متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھانا
6- فرقہ وارانہ تصادم اور فسادات کے معاملات کی چھان بین کرنا
شکایات کا انتظام:
اقلیتوں کے قومی کمیشن کے مطابق اب جو شکایات موصول ہو رہی ہیں ان میں زیادہ تر پولیس کے مظالم، سروس کے معاملات، اقلیتی تعلیمی اداروں اور مذہبی جائیدادوں پر تجاوزات سے متعلق ہیں۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے تحت متعلقہ حکام سے رپورٹیں طلب کی جاتی ہیں۔ رپورٹوں کی وصولی پر، کمیشن شکایات کے ازالے کے لیے متعلقہ حکام کو مناسب سفارشات پیش کرتا ہے۔
موجودہ میں اقلیتوں کے حالات:
اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ، ملک میں ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جس میں اقلیتوں کے مذہبی آزادی، سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی کو متاثر کرنے اور اقلیتی برا دری کو تشدد و زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہر برس اقلیتوں کے حقوق کا دن تو منایا جاتا ہے۔ تاہم اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے حکومتوں کا امتیازی رویہ سامنے آتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی کی فیصد بھی بے حد تشویشناک ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت صرف کاغذات تک محدود ہوگئی ہیں۔
ملک کی اقلیتوں کو شکایت ہے کہ، موجودہ میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی تشدد اور دیگر مسائل سامنے آتے ہیں تاہم اس پر حکومت کی کاروائی برائے نام ہی نظر آتی ہے۔ اقلیتی طبقہ وہی مانگ کرتا ہے جسے دستور ہند نے آرٹیکل 25,29,30 میں دیا ہے جن کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
اقلیتوں کی شکایت ہے کہ، مولانا آزاد فیلو شپ اور پری میٹرک اسکالر شپ بند کردی گئی۔ مرکزی حکومت کے وزرات اقلیتی امور کے مختص بجٹ میں بھی بھاری کٹوتی کی گئی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اقلیتی طبقہ کے ضرورت مندوں کو جو سہولتیں مختلف اسکیموں کے تحت ملتی ہیں اس کو دھیرے دھیرے کم کیا جا رہا ہے اور یہ آئین میں ملے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ملک کی اقلیتی برادریوں کا خیال ہے کہ، اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی تبھی ممکن ہے جب بر سراقتدار پارٹی ایمانداری اور آئین کے مطابق کام کرے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ، اقلیتوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے نام پر جو فنڈ مختص ہے اس کے بندربانٹ پر روک لگائی جائے۔
