چندریان 3 چاند کے بہت قریب پہنچ گیا ہے۔ آخری ڈیبوسٹنگ کے بعد وکرم لینڈر دیر رات یعنی اتوار (20 اگست) کو صبح 2 بجے سے 3 بجے کے درمیان چاند کے مزید قریب پہنچ گیا۔ اب وکرم لینڈر چاند سے صرف 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس سے پہلے یہ 113 کلومیٹر 157x کلومیٹر کے مدار میں تھا۔ دوسرے اور آخری ڈیبوسٹنگ آپریشن (رفتار کو کم کرنے کا عمل) نے چاند کی سطح سے دوری کو 25 کلومیٹر 134x کلومیٹر تک کم کر دیا ہے یعنی اب وکرم لینڈر چاند کی سطح سے محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اب بس 23 اگست کو کامیاب لینڈنگ کا انتظار ہے۔ لینڈنگ سے پہلے، ماڈیول کو اندرونی جانچ سے گزرنا ہوگا اور لینڈنگ کے طے مقام پر طلوع آفتاب کا انتظار کرنا ہوگا۔ I
پہلی ڈیبوسٹنگ 18 اگست کو ہوئی تھی
چاند کی سطح پر نرم لینڈنگ کے لیے چندریان 3 کے لینڈر کی رفتار کو کم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لینڈنگ مشن میں ڈیبوسٹنگ سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس سے قبل 18 اگست کو ڈیبوسٹنگ کا پہلا عمل کیا گیا تھا۔ اتوار کو ہونے والے دوسرے اور آخری ڈیبوسٹنگ آپریشن کے بارے میں اسرو نے بتایا کہ آپریشن کامیاب رہا اور اس نے مدار کو 25 کلومیٹر 134x کلومیٹر تک گھٹا دیا ہے۔ سافٹ لینڈنگ کے لیے پاورڈ ڈیسنٹ 23 اگست 2023 کو بھارتی وقت کے مطابق شام 5.45 بجے کے قریب شروع ہونے کی امید ہے۔
بھارت کا قمری مشن کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ اس دوران چندریان 3 سے لی گئی چاند کی تصویریں مسلسل منظر عام پر آ رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر چندریان 3 کے لینڈر پوزیشن ڈیٹیکشن کیمرے سے 15 اگست کو لی گئی چاند کی تصویر منظر عام پر آئی ہیں۔ اسرو نے یہ تصویریں ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر شیئر کی ہیں۔ آپ یہاں چندریان تھری کے کیمرے سے بنایا گیا چاند کا ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔
چاند کے جنوبی قطب پر سافٹ لینڈنگ
لینڈر وکرم اس وقت چاند کے مدار میں اس جگہ پر ہے جہاں سے چاند کا قریب ترین نقطہ 25 کلومیٹر اور سب سے دور 134 کلومیٹر ہے۔ اس مدار سے، یہ 23 اگست بروز بدھ چاند کے جنوبی قطب کی سطح پر سافٹ لینڈنگ کی کوشش کرے گا۔ ابھی تک چاند پر جانے والا کوئی بھی مشن قطب جنوبی تک نہیں پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرو نے چندریان کو یہاں بھیجا ہے۔ لینڈر وکرم خودکار موڈ میں چاند کے مدار میں اتر رہا ہے۔ درحقیقت یہ خود ہی فیصلہ کر رہا ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ اترنے کے بعد بھارت یہ کامیابی حاصل کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔ اب تک صرف امریکہ، سوویت یونین (موجودہ روس) اور چین ہی یہ کام کر پائے ہیں۔
