سرینگر: سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان کے ماہرین کشمیر کے دورے پر آرہے ہیں۔ دونوں ممالک کے غیر جانبدار ماہرین کے وفود کا یہ دورہ 17 سے 28 جون کو ہوگا۔ ایسے میں اس دورے کے پیش نظر حکومت نے 25 رابطہ افسران کو بھی مقرر ہے۔ ایک سرکاری حکمنامے کے مطابق مقرر کئے گئے سبھی افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ بالترتیب منیجنگ ڈائریکٹر، جموں و کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن – جموں اور سرینگرکے ان کے دفاتر میں رپورٹ کریں جہاں انہیں دورے کے دوران اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کیا جائے۔‘‘
یاد رہے کہ یہ دورہ سندھ طاس معاہدے کی دفعات کے تحت ہو رہا ہے جو کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سال1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے طے پایا تھا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق طے پانے والے ’’سندھ طاس‘‘ معاہدے کی رو سے بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں – بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر زیادہ کنٹرول رہے گا۔
معاہدے کے تحت جموں و کشمیر سے بہنے والے مغربی دریاؤں – چناب جہلم اور سندھ کے اکثر پانی پر پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ اگرچہ بر قرار ہے تاہم دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور بعض اوقات اس معاہدے کو جاری رکھنے کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔