تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
بڈگام کی ایک مسجد کے اندر سوزوسازوزندگی کو لے کر کشمیر کے مذہبی حلقوں میں سخت ہنگامہ پایا جاتا ہے ۔ یہاں کی جامع مسجدمیں وعظ کہتے ہوئے امام جامع نے سنگیت کی نمائش کی اور دلیل دی کہ اسلام میں اس طرح کی چیزیں جائز ہیں ۔ مذکورہ واقعے کو لے کر مولوی سخت سیخ پا ہیں اور اسے ایک غیر شرعی فعل قرار دے رہے ہیں ۔ اس درمیان بعض لوگ تصوف کا سہارا لے کر اسے جائز قرار دے رہے ہیں جبکہ دیوبندی مکتب فکر کے لوگ اس کو بہر صورت ایک غیر شرعی عمل مانتے ہیں ۔ یہ علما تصوف کے ایسے طریقوں کو ماننے سے انکار کررہے ہیں اور ایسی مسجد کے اندر نماز ادا کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے امام کے اس عمل سے مطمئن ہیں اور اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ تاہم کئی مولوی اس پر بحث جاری رکھے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کے خلاف برہم دکھائی دیتے ہیں ۔ اس وجہ سے آج کل کئی حلقوں میں بحث و مباحثہ جاری ہے ۔
تصوف کو پسند کرنے والے حلقوں کے اندر سماع کی مجالس منعقد کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ایسے حلقوں میں گانے بجانے کی محفلیں بڑے اہتمام سے منعقد کی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کے اندر سب سے پہلے آزاد خیال اور ترقی پسند ان ہی لوگوں کو خیال کیا جاتا ہے ۔ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی نظریات ، عبادات اور مخاصمت کو لے کر شدت پسند طریقہ کار کی حمایت کی جارہی ہے ۔ خلافت سے لے کر آج تک بنیاد پرستوں کا یہی رویہ رہا ہے کہ انہوں نے کسی بھی صورت میں تفریح کے ایسے طریقوں کو رائج ہونے نہیں دیا ۔ بلکہ ان چیزوں کی حوصلہ افزائی تو کجا ان کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اسے شر اور فساد کا منبع قرار دے کر اس کے خلاف سخت قسم کا رویہ اختیار کیا گیا ۔ اگرچہ برصغیر میں اس کے برعکس صورتحال رہی ۔ ایرانی سوچ کو لے کر اعتدال پسند اسلام رائج ہوا اور صوفیا کو بڑی قدر ومنزلت سے دیکھا جانے لگا ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پورے ہندوستان میں اسلام کی بنیاد ان ہی صوفیا نے ڈالی ۔ ان کی محنت اور کوششوں سے یہاں بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کی تحریک چلی اور بڑی تعداد میں لوگ ایمان لے آئے ۔ اس کے برعکس جو شدت پسند تحریکیں چلیں وہ بہت حد تک ناکام ہوکر رہیں ۔ بیرونی حملہ آوروں نے اسلام مخالف اقتدار کی بیخ کنی کرنے میں مدد تو دی ۔ لیکن اسلام کو رائج کرنے میں اس سے کوئی بڑی لہر نہیں چلی ۔ مسلمان بادشاہوں کے ساتھ تعلق بڑھانے کے لئے کچھ درباریوں نے ایمان لایا ۔ لیکن عام لوگوں کے اندر اسلام کی محبت صرف اور صرف اولیا ء اور صوفیا کی کوششوں سے پیدا ہوئی ۔ لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ مسلمان ہوئے وہ صوفیا کی ذاتی کاوشوں کی وجہ سے ممکن ہوسکا ۔ ان لوگوں نے بغیر کسی تبلیغ یا زور زبردستی کے اپنی نرم روی ، اخلاقی اقدار اور اشتراک باہمی سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ۔ انہوں نے نو مسلموں کے عادات و اطوار اور پسند یا ناپسند کو موضوع بحث بنانے کے بجائے اپنی طور طریقوں سے لوگوں کو متاثر کیا ۔ اس ساری صورتحال سے یہاں کے عوام پوری طرح سے باخبر ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ جن صوفیا نے یہاں اسلام کو فروغ دیا وہ بڑے حلیم اور شرافت کے پیکر تھے ۔ ان کے لئے لوگوں کو تولنے اور پرکھنے کا اس کے سوا کوئی پیمانہ نہیں تھا کہ ان کے دلوں کے اندر دوسروں کی محبت کہاں تک جاں گزین ہے ۔ جو جتنا اللہ کی مخلوق کے ساتھ محبت کرتا وہ اتنا ہی بڑا مسلمان سمجھا جاتا تھا ۔ اس میں کسی قسم کا تعصب ، اونچ نیچ اور مذہبی قید وقیود نہیں پائے جاتے تھے ۔ بغیر کسی تخفیف کے اللہ کی مخلوق سے حد درجے کی محبت کی جاتی تھی ۔ انہیں کھلایا پلایا جاتا تھا ۔ بلکہ ان کے ساتھ مل جل کر کھایا پیا جاتا تھا ۔ یہی اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ قرار پائی اور لوگ جوق در جوق اسلام کے اندر داخل ہوگیا ۔ یہ ایسی تاریخی حقیقت ہے جس کو کسی طور جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے ۔ اس درمیان کوئی طبقہ یہ نظریہ اور تعلیم لے کر سامنے آئے کہ اولیا اور صوفیا کا طریقہ اسلام مخالف اور شریعت سے ماورا طریقہ ہے تو عام مسلمان اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ یہ بات ماورائے عقل ہے کہ ایک طرف صوفیا کا کام ہے ۔ ان کے کردار کا نتیجہ ہے ۔ جو اسلام کے لئے سخت فائدہ مند ثابت ہوا ہے ۔ دوسری طرف اس سب کو ناجائز قرار دینے والوں کی باتیں ہیں ۔ کھوکھلی باتیں ۔ جو ممکن ہے کہ شریعت کے عین مطابق ہوں ۔ لیکن بے اثر اور بے نتیجہ ۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں آج بھی صوفیا سے محبت کرنے اور اولیا کو اسلام کے اصل نمائندے ماننے والوں کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے ۔ یہاں پوری دنیا کے مسلمانوں کے برعکس میلاد کے جلوس بھی نکالے جاتے ہیں اور محرم میں نوا خوانی بھی کی جاتی ہے ۔ اس میں فرقہ پرستی کا رجحان ہے نہ ایسی کوئی بنیاد قبول کی جاتی ہے ۔ کربلا کے اندر پیش آئے واقعات کے حوالے سے جو تاثرات شیعہ حضرات کے ہیں وہی عام سنیوں کے خیالات بھی ہیں ۔ اس معاملے میں لوگ کسی دوسرے فرقے کی دخل اندازی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اس بات کے باوجود کہ آل سعود کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے مجاور وں کے طور عزت کی جاتی ہے ۔ لیکن ان کی وہابیت کو ماننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ۔ بلکہ اس معاملے میں کھل کر ان سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ ماسوائے ان چند گنے چنے لوگوں کے جن کے مالی اغراض اس گروہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ اس طرح کے ماحول کے اندر لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کسی صوفی برگ یا صوفیوں کے طریقے پر چلنے والوں کے ساتھ اختلاف کا اظہار کیا جائے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ جدید آلات نے ان روایات کو پس پشت دھکیل دیا جن کو فروغ عام حاصل تھا ۔ اب شادیوں اور دوسری محفلوں میں ناچ گانے کے وہ طریقے اپنائے نہیں جاتے ہیں جو ایک زمانے میں عام تھے ۔ اولیا اللہ کے مزاروں اور صوفیا کی درگاہوں میں وہ چیزیں نہیں ہوتی ہیں جو ایک زمانے میں عام تھیں ۔ مسجدوں میں باجے گاجے لینا کسی کو پسند نہیں ۔ لیکن یہ لوگ جو اولیا اور صوفیا سے محبت کرتے ہیں اس موضوع پر بحث کرنے کے حق میں نہیں ۔ ان کی نظر میں اگر یہ چیز پسندیدہ نہیں ۔ لیکن اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی قابل قبول نہیں ۔ علما سوچتے ہیں کہ ان کا فرض ہے ایسی باتوں پر اپنی آرا پیش کریں ورنہ وہ مجرم قرار پائیں گے ۔ حالانک بیشتر دینی معاملات میں یہ چپ سادھ لیتے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات طے ہے کہ اس معاملے میں ان کی باتوں کا کوئی خاطر خواہ اثر پڑنے والا نہیں ۔
