تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
عالم اسلام کا ایک بڑا علاقہ زلزلے کی زد میں ہے ۔ مرنے والوں کی تعداد 50,000 تک پہنچنے کا اندازہ ہے ۔ اس کے علاوہ سارا مال و زر تباہ ہوچکا ہے ۔ یہی وہ خطہ ہے جو اسلامی عبادات کے اعتبار سے جدید دنیا میں سب سے زرخیز خطہ مانا جاتا ہے ۔ مسلمان خلافت عثمانیہ اور حالیہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے تناظر میں اس علاقے سے اسلامی احیائے نو کی امید کرتے ہیں ۔ زلزلے کے دوران یہاں عقل کو حیران کرنے والے واقعات پیش آئے ۔ مائوں نے ا ولاد کو بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کی ۔ بہنوں نے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے اپنے معصوم بھائیوں کی ڈھال بن کر ان کی حفاظت کی ۔ جانوروں نے امدادی ٹیموں کی رہنمائی کرتے ہوئے اپنے مالک کی جان بچانے میں مدد کی ۔ دنیا بھر سے امدادی اشیا اور رقوم بڑے پیمانے پر ان خطوں میں پہنچائی جارہی ہیں ۔ ہندوستان سے کئی جہاز راحت کا سامان لے کر ترکی اور شام پہنچ چکے ہیں ۔ جموں کشمیر میں بھی کئی طرح کی اشیا جمع کرکے مبینہ طوردہلی میں قائم ترکی سفارتخانے پہنچائی جارہی ہیں ۔ اس دوران یہ بھی سنا گیا کہ برما کی ایک مہاجر خاتون نے اپنے سونے کے کڑے فروخت کرکے بہت سی اشیا امدادی کیمپ میں پہنچادیں ۔ ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ 35 سالوں سے ایک ایک پائی جمع کرکے عمرہ پر روانہ ہونے والا تھا ۔ زلزلہ زدگان کی حالات زار سن کر عمرہ پر جانے کا خیال ترک کیا اور ساری رقم خیرات کردی ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس وقت عمرہ سے زیادہ زلزلہ زدگان کی امداد کرنا ضروری ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ۔ علما کا اس بارے میں کیا خٰال ہے معلوم نہیں ۔ تاہم لوگ حالات دیکھ اور سن کر امدادی کیمپوں میں آرہے ہیں اور اپنا سب کچھ زلزلہ متاثرین کے لئے پیش کررہے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر میں اب بھی لوگ عمرہ اور دوسری زیارتوں کے لئے جانا اہم سمجھتے ہیں ۔ اس دوران جو واقعات پیش آرہے ہیں اندازہ ہورہاہے کہ ان لوگوں کو عمرہ کی کوئی سمجھ بوجھ ہے نہ حج کے الف بے سے باخبر ہیں ۔ بس سفر پر جانا اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور تفریح کے لئے جانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ عمومی معاملہ نہیں ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بڑی عقیدت اور احترام سے اس سفر پر جارہے ہیں ۔ لیکن بیشتر لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ ایسا وہ کیوں کررہے ہیں ۔ ان کا جانا کیا اتنا ضروری ہے کہ لاشوں پر سے گزر کر اس فرض کو ادا کرنا ہے ۔ یہ لوگ اپنے ارد گرد کے حالات سے بے خبر ہیں ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے امداد کی مستحق ہے ۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کئی خاندانوں میں معصوم بچوں کے سوا کوئی بھی بچا نہیں ہے ۔ اس وقت ان کی مدد نہ کی گئی تو یہی معصوم بچے مختلف اداروں کی بھینٹ چڑیں گے ۔ پھر انہیں آگے جاکر معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا دین کیا ہے ۔ ان کا وطن کون ساہے ۔ ان کا خاندان کیا ہے ۔ ان کی کوئی شناخت نہیں ہوگی ۔ بلکہ یہ اپنے پالنے والوں کے مرہون منت ہونگے ۔ ان کے دین پر قائم ہونے اور انہیں اپنا رب جان کر ان کے احسان مند ہونگے ۔ ایسے میں ہمارا عمرہ اور ہمارا حج اللہ کو کیا فائدہ دے گا ۔ ہمارے لئے ایسی عبادات کس کام کی ہونگی ، ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ۔ اللہ ہمیں اس بارے میں پوچھے گا بھی یہ ہمارے وہم و خیال میں بھی نہیں ۔ اگلی دنیا میں ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا ہم اس بارے میں بے خبر ہیں ۔ واعظ تو ہمیں ترکیہ اور شام کے حالات کے بجائے عرب شیخوں کے مرتبے اور ان کے درجات سے باخبر کررہے ہیں ۔ وہ ہمیں ان کا باجگزار بننے کا وعظ سنارہے ہیں ۔ کیونکہ ان کا اپنا مفاد اسی میں ہے ۔ مسلمانوں کا مجموعی مفاد کس میں ہے اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ۔
انسانی زندگی گزارنے کی لئے ترجیحات ضروری ہیں ۔ کسی کے مکان میں آگ لگ جائے اور وہ باغبانی میں مصروف ہو اس کی صحیح عقل کی نشاندہی نہیں کرتا ہے ۔ مکان میں آگ لگ جائے اور اس دوران معلوم ہو کہ اندر کوئی بچہ سورہاہے ۔ آگ کو نظر انداز کرکے بچے کی جان بچانا ضروری ہے ۔ کوئی بزرگ دروازے کے بجائے کھڑکی سے نکلنے کی کوشش کرے اور ہم نماز میں لگے رہیں ہماری کم عقلی کی دلیل ہے ۔ اس موقعے پر نماز سے افضل برگ کی جان بچانا ہے ۔ ترجیح اسی کو دینی ہوگی ۔ نماز چھوڑ کر انسانی جان بچانا ضروری ہے ۔ ایسے موقعوں میں ترجیحات مقرر کرنا مشکل نہیں ہے ۔ یہی حال قوموں کا ہے ۔ بحیثیت قوم ہمیں اجتماعی مفاد اور ان کی ترجیحات کا علم ہونا چاہئے ۔ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وقت کی ضروریات کے ساتھ ترجیحات کا تعین کرے ۔ اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم عبادات کا اہتمام کریں ۔ قرآن خوانی سے ہم جان لیوا بیماریوں کا علاج تلاش نہیں کرسکتے ۔ اجتماعی فاتحہ خوانی سے ہم دریا کا رخ موڑ نہیں سکتے ۔ ہمارے عالم اور فاضل دنیا کو مسخر نہیں کرسکتے ۔ ہمارے قاری اور حافظ امت مسلمہ کو آنے والے مصائب سے بچانہیں سکتے ۔ یہ لوگ پرسکون حالات میں اللہ کو خوش کرسکتے ہیں ۔ لیکن سخت مشکلات سے نکال کر مسلمانوں کو سکون دلا نہیں سکتے ۔ یہ خود امداد پر پلتے ہیں ۔ بھیک میں ملے ٹکڑوں پر سناس لے رہے ہیں ۔ یہ بھیک عام لوگوں سے ملے یا بڑے بڑے سیٹھوں اور شیخوں کے ذریعے پہنچ جائے ۔ اب جنہیں اللہ نے مال و زر سے نوازا ہے انہیں چاہئے کہ ترجیحات کا اندازہ لگائیں اور فیصلہ کریں کہ پیسہ کس مد پر خرچ کرنا ہے ۔ اس وقت تفریح پر اخراجات کرنے ہیں یا ضرورت مندوں کی حاجت روانی کرنی ہے ۔ مسلمانوں کی حفاظت عمرہ اور حج سے ہوگی کہ ترکی اور شام کے مسلمانوں کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے ہوگی ۔ اس کا اندازہ لگانا ضروری ہے ۔
