تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے سرکار کی طرف سے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جارہی ہے ۔ اس حوالے سے پولیس نے اب تک کئی سو اسمگلروں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے ۔ اس کاروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے پورے کشمیر میں منشیات کی تجارت کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ منشیات کا کاروبار کرنے والے مردوں کے علاوہ خواتین اسمگلروں کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ پولیس کا جنوب و شمال وسیع کریک ڈاون جاری ہے ۔ منشیات کی پیداوار کے حوالے سے شمالی کشمیر بہت آگے ہے ۔ یہاں کے کئی علاقوں میں وسیع اراضی پر بنگ اور خشخاش کی کاشت کی جاتی ہے ۔ بعد میں اس سے کئی قسم کی نشہ آور چیزیں تیار کی جاتی ہیں ۔ حکومت نے انتظامی سطح پر اس کاشت کو روکنے کے لئے ایک کامیاب مہم چلائی ہے ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ رواں سال کے دوران ان علاقوں میں نشہ آور چیزوں کی پیداوار بہت کم ہوگی ۔ بلکہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ منشیات کی پیداوار کو صفر سطح تک لایا جائے ۔ انتظامیہ کے علاوہ کئی دوسرے سماجی گروہ اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں ۔ منشیات کے کاروبار کو روکنے کے لئے ڈویژنل کمشنر نے مذہبی رہنمائوں سے تعاون کی اپیل کی ۔ اس اپیل کے حوالے سے ابھی تک کسی قسم کے ردعمل یا تاثر کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔
جموں کشمیر میں منشیات کے حوالے سے یہ افسوسناک خبر سامنے آئی ہے کہ اس کا شمار ملک میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال کرنے والے علاقوں میں ہوتا ہے ۔ اب تک پنجاب کی ریاست پہلے نمبر پر تھی ۔ تازہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اب جموں کشمیر اول نمبر پر ہے ۔ منشیات کا استعمال کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں باتئی جاتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس کا رجحان بہت آگے تک بڑھ چکا ہے ۔ اب طلبہ کے ساتھ طالبات بھی نشہ آور اشیا کا استعمال کرنے لگی ہیں ۔ اس دوران وزیر اعظم نے نشہ مکت بھارت کا نعرہ دیا ہے اور پورے ملک میں اس حوالے سے کارگر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ وزارت داخلہ کے منصوبے کے مطابق اگلے دس سالوں کے اندر ملک کو نشہ سے مکت کیا جائے گا ۔ جموں کشمیر میں منشیات کا سب سے زیادہ استعمال ہورہاہے ۔ اس وجہ سے قدرتی طور سرکاری مہم کا دبائو بھی اسی علاقے میں پایا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے مختلف علاقوں میں جانکاری کیمپ منعقد کئے جارہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک کیمپ میں بولتے ہوئے کشمیر کے صوبائی کمشنر نے پنجوں ، سر پنجوں اور مذہبی رہنمائوں سے اس مہم کو موثر بنانے کے لئے اپنا رول ادا کرنے کی اپیل کی ۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ کشمیر میں اس مہم کو عوامی سطح پر بڑا فروغ مل رہا ہے ۔ سماجی تنظیموں نے اس مہم کو آگے لے جانے میں مدد فراہم کی ۔ تاہم یہ بات سخت مایوس کن ہے کہ مذہبی رہنما اس مہم میں کہیں نظر نہیں آتے ۔ مذہبی حلقوں کے لئے یہ بات بڑی شرمندگی کا سبب ہے کہ ان کی طرف سے منشیات مخالف مہم کا آغاز کرنے کے بجائے سرکار نے اس ایشو سے دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ یہ مہم بہت پہلے سے شروع کی گئی ہے اور زور وشور سے اس مہم کو آگے لیا جارہا ہے ۔ طبی حلقے اس مہم سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اسکولوں میں اس غرض سے سیمنار منعقد کئے جارہے ہیں ۔ تحصیلداروں نے اس مہم کو کامیاب بنانے میں ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ بلاک آفسوں میں اس مہم کے حوالے سے سرگرمیاں جاری ہیں ۔ یہاں تک کہ آنگن واڑی ورکروں کی طرف سے اس مہم کو کامیاب بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ واحد مذہبی حلقہ ایسا گروہ ہے جس کا کہیں وجود نظر نہیں آتا ۔ ایسا بلا وجہ نہیں ۔ بلکہ اس کے کچھ واضح اسباب ہیں ۔ مذہبی حلقوں کا جو اثر پایا جاتا ہے وہ کچھ محدود دائروں میں ہی نظر آتا ہے ۔ ایسے حلقوں میں جہاں منشیات کے پھیلائو کو بے اثر کیا جاسکتا ہے مذہبی رہنمائوں کی کوئی قدر ہے نہ وقعت پائی جاتی ہے ۔ مذہبی رہنما صرف دو کاموں میں حصہ لیتے ہیں ۔ ایک مسلکی تنازعات کا فروغ ۔ دوسرا مذہبی حلیہ بنانے اور بگاڑنے کا کام ۔نئی نسل کے نوجوان جو منشیات کے استعمال اور پھیلائو کی طرف راغب ہیں ذہنی تنائو کا شکار ہونے کے علاوہ مذہبی حلقوں سے بہت ہی متنفر ہیں ۔ ان کے کردار اور زندگی کے رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر نوجوان ایسے مذہبی رہنمائوں سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسی مذہبی سرگرمیوں کا حصہ بنا ہوا ہے ۔ لیکن یہ وہی طبقہ ہے جو مذہب کو لے کر سماج کا استحصال کرنے میں آگے آگے ہے ۔ چالاک اور شاطر نوجوانوں پر مشتمل یہ طبقہ اپنی کاروباری سرگرمیوں کو آگے لے جانے کے لئے مذہب کا استعمال کرتا ہے ۔ بلکہ کئی لوگ اس راستے سے لوٹ کھسوٹ کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ نادار ، ان پڑھ اور سب سے غریب طبقہ ہونے کے باوجود یہ نوجوان آج عیاشی کی زندگی گزارنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ مذہب کا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کے بعد انہوں نے اپنے لئے زندگی کی ہر وہ آسائش حاصل کی جس کا یہ چند سال پہلے تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ اس کے ماسوا مذہبی رہنمائوں کا کہیں کوئی اثر نہیں پایا جاتا ہے ۔ مخلص لوگوں کے حلقوں میں ایسے مذہبی رہنمائوں کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے ۔ ڈویژنل کمشنر کی اپیل اپنی جگہ ۔ تاہم اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ان کے ذریعے منشیات کے خلاف مہم میں کوئی رول بن سکتا ہے ۔ ان مذہبی رہنمائوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ حرام کی کمائی ہے ۔ حرام کی کمائی کرنے والے ان کے سب سے زیادہ نزدیک پائے جاتے ہیں ۔ ایک بار یہ حرام کی کمائی سے ہاتھ کھینچ لیں یا حرام کی کمائی کرنے والوں کے خلاف منہ کھولیں تو ان کی آمدنی کے ذرایع مفلوج ہوجائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی رہنما حرام کاروبار خاص کر منشیات کے خلاف کسی مہم کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ۔ ان کے ذریعے کوئی بااثر کام ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے ۔
