• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
پیر, مئی ۱۲, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

شیر اور ملا

Online Editor by Online Editor
2023-05-05
in جمعہ ایڈیشن
A A
FacebookTwitterWhatsappEmail
مشتاق الحق احمد سکندر

اکثر ملاؤں کو احمقانہ باتیں کرنے کی بیماری ہوتی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کیا بولنا ہے، کیسے بولنا ہے، کب اور کہاں بولنا ہے۔ کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے موجودہ دور اور رجحانات کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اسلام کو سمجھنے اور اسے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کے لیے بہت زیادہ لگن، محنت، تحقیق، تجزیہ اور سب سے بڑھ کر اجتہاد کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر ملا اس تناظر میں تربیت یافتہ نہیں ہیں، کیونکہ جنوبی ایشیا میں ایک صدی سے زائد عرصے سے مدارس کے نصاب اور تدریسی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ زیادہ تر مدارس اپنے طلباء کو اسلام کی بجائے اپنے مکتبہ فکر اور فرقے کے عقائد کی اندھی تقلید کرنا سکھاتے ہیں، لہٰذا اگر وہ کسی سوال کا جواب دیں یا کسی تشریح میں ملوث ہوں تو یہ ان کے مکتبہ فکر کے دائرے میں ہی ہوگا۔ اس لیے ملاؤں سے کسی بڑی بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ان کے پاس مقرروں کی طاقت ہے، اس لیے وہ بہت زیادہ ہجوم اور اجتماعات کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ مقررین اپنے سامعین کو بے ہوش کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ عقل اور فکر کی طاقت کھو دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ اندھا دھند مقرروں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ مقررین فرقوں اور دھڑوں کے لیے بہترین کام کرتے ہیں، اس لیے وہ عوام کے درمیان زبردست پیروی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سیاست اور مذہب دونوں میں مسلمانوں کے اپنے مقررین ہیں۔ وہ اندھے پیروکاروں کو اپنا مرید بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ عقلیت پسندی اور تنقیدی سوال/سوچ سے وہ بے انتہا نفرت کرتے ہیں۔
کشمیر میں مقررین کی اس نئی نسل میں ایک ملا اپنے بچکانہ، نادان مگر اشتعال انگیز بیانات سے سرخیوں میں ہیں۔ مزید یہ کہ ملا اپنے نام کے آگے علامہ لگا لیتا ہے اس رجحان کی بلاشبہ مذمت کی جانے کی ضرورت ہے۔ علامہ وہ شخص ہوتا ہے جو کثیر علوم و فنون میں مہارت رکھتا ہے۔ لیکن اب تو رجحان ایسا بن گیا ہے کہ ترکی ٹوپی اور لمبے جبے کے ساتھ کسی بھی داڑھی والے کو علامہ کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان میں سے اکثر ملا اسلام کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ لیکن وہ سنی سنائی باتیں کرتے ہیں، مدھر لہجے میں کچھ اشعار پڑھتے ہیں، سیاق و سباق سے ہٹ کر چند قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں اور پھر مضحکہ خیز تشریحات میں لگ جاتے ہیں۔
اس سے پہلے یہ مقررین اور مسخرے صرف ان مساجد تک محدود تھی جن کے منبر ملاؤں نے ہائی جیک کر لیے تھے۔ لیکن اب سوشل میڈیا کی آمد کی وجہ سے ان ملاؤں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے جو مسلمانوں کو تقسیم کر کے تاریک دور کی طرف لے جا رہا ہے۔ اسلام نے یورپ کی طرح کسی تاریک دور کا مشاہدہ نہیں کیا لیکن ملاؤں کی بدولت ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ بالآخر ہمارے انجام کی طرف لے جائے گا اور مسلم معاشرے میں کوئی دانشور، ماہر دینات، ماہرین تعلیم اور علماء موجود نہیں رہ جائیں گے۔ اس خلا کو ملاؤں نے ہائی جیک کر لیا ہے جن کے پیروکار اسلامی عقلیت پسندی کے کسی بھی نشان کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تو اس علامہ نے حال ہی میں وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں اپنے پیروکاروں سے درخواست کی کہ آپ میرے لیے ایک شیر کا بندوبست کریں کیونکہ میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ اعتراف کرتے ہیں کہ میں اداس ہوں کیونکہ جنگلی جانور کو اس طرح کا نشانہ بنانا قانوناً ممنوع ہے۔ پھر ایک اور خطبہ میں وہ کہتے ہیں کہ خانہ بدوش قبیلے کے کسی شخص نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں شیر کے لیے پانچ لاکھ روپے نقد دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ کافی مضحکہ خیز تھا لیکن میں اس کی خواہش کو سمجھ اور پڑھ سکتا تھا۔ صوفیوں اور رشیوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر عوامی کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں، جن میں ان کی معجزاتی طاقت کے طور پر شیروں کی سواری کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شیر ہر ہفتے مخصوص دنوں میں ان رشیوں اور صوفیوں کے مزاروں پر جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کے نزدیک ان صوفیوں اور رشیوں نے ان شیروں کا مقابلہ اپنی روحانی صلاحیت کے ذریعے کیا۔ یہ کہانیاں عوامی داستانوں کا ایک حصہ ہیں جو اسلام اور تصوف کے ان مبلغین کی شخصیتوں کے گرد روحانیت اور معجزاتی طاقتوں کی چمک پیدا کرتی ہیں۔
اس طرح کی کہانیاں مختلف مذاہب میں ہر مذہبی شخص سے منسوب کی گئی ہیں۔ اکثر ان کے پاس کرامات کا ایک پورا مکتب ہوتا ہے۔ ان مذہبی ہستیوں اور خدا کے بندوں کے معجزات کے بارے میں بہت بڑی بڑی باتیں لکھی گئی ہیں۔ صوفیوں اور رشیوں کے صحیفے ان واقعات اور کرامات سے بھرے پڑے ہیں۔ اب بھی انہیں کی بنیاد پر کسی بھی صوفی کی روحانیت اور مقام کا معیار متعین کیا جاتا ہے۔ اگرچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی کرامتیں احادیث یا تاریخی کتابوں میں بہت کم یا نہ کے برابر مذکور ہیں۔ لہذا مسلمان خالص انسانی سطح پر ان کی سرگرمی اور زندگی کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کی تقلید کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جبکہ کئی بار ان کے اعمال پر سوال بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان تھے۔
صوفیوں اور رشیوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ کوئی بھی ان کی کہانیوں اور کرامات پر سوال نہیں اٹھا سکتا، بلکہ یہ مانا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے ان کی تقلید اور ان پر یقین کرنا چاہیے۔ تو یہ جناب بھی کشمیر میں صوفیوں اور رشیوں کا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس لیے لوگوں کو اس پر اور اس کی خواہشات پر بلا شبہ یقین کرنا چاہیے۔ لہٰذا شیر کی یہ طلب اور خواہش اس کی ’صوفی حرکت‘ کے حقیقی ارادوں کو چھپانے کا ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا ، یہ اپنے آپ کو شیر سے جوڑ کر پیش کرنا اور صوفی کی سیڑھی میں اوپر کی طرف بڑھنے کی کوشش کرکے حقیقی صوفی کے طور پر اپنے مقام کو بلند کرنا ہے۔ وہ یہ بھی بولتے ہیں کہ میں شیر کو پالنے کے اپنے مقصد کو تب ہی ظاہر کرے گا جب یہ مل جائے گا۔
ملا موصوف اس حقیقت سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں کہ کشمیر میں شیروں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایک عام کشمیری (سہ) کے لیے، اردو میں شیر اور انگریزی میں ٹائیگر بلی کے خاندان کے ہر فرد بشمول شیر، چیتے، برفانی چیتے اور باگھ پر مشتمل ہے۔ تو ہمارے ملا بھی انہی خطوط پر سوچتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیر بول کر کشمیر میں پائے جانے والے برفانی چیتے مراد لے رہے ہوں۔ ان ملاؤں کا یہ حال افسوسناک ہے۔ ان جنگلی جانوروں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور انہیں پالے جانے پر پابندی ہے۔ اس لیے ہمارے ملا کو چاہیے کہ وہ کسی اور جانور کو پالنے کے لیے کوئی اور کہانی ایجاد کرے۔ بندر ایک آپشن کے طور پر میں تجویز کرسکتا ہوں۔ اس سے ملا کو اپنے بندر دماغ کے لیے اچھی مصروفیت اور مصروف رہنے میں بھی مدد ملے گی۔
نیوایچ اسلام

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

پیغمبر اسلام کا مقام و مرتبہ

Next Post

لیفٹیننٹ گورنر نے بدھ پورنیما کے موقعہ پر عوام کو مبارک باد دی

Online Editor

Online Editor

Related Posts

معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

انور شاہ کشمیری بھی مسلکی تصادم کا شکار

2024-12-13
File Pic

روحِ کشمیر کا احیاء: تصوف کے ذریعے ہم آہنگی کا فروغ

2024-12-13
سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

سرکاری عہدے داروں کا عمرہ۔۔۔۔کاش یہ رقم محتاجوں پر خرچ ہوتی

2024-11-29
ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

ہاری پاری گام میں حضرت شیخ العالم ؒ (ھ842- ھ757) کا قیام

2024-11-29
والدین سے حُسن سلوک کی تعلیم

2024-11-08
شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

شیخ نورالدّین ولی کا مرتبہ اور مقام

2024-11-01
Next Post
اِنتظامی کونسل نے ایس آر او ۔43 کے نئے تشکیل دئیے گئے تعیناتی قوانین کو منظوری دی

لیفٹیننٹ گورنر نے بدھ پورنیما کے موقعہ پر عوام کو مبارک باد دی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan