تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
پچھلے دنوں ملکی سطح کے سب سے با اثر سروس کے لئے منعقدہ امتحانات کے نتائج سامنے آئے ۔ سیول سروسز کے لئے پچھلے سال لئے گئے امتحان میں 933 امیدواروں کو اس سروس کے لئے منتخب قرار دیا گیا ۔ منتخب امیدواروں میں سے 32 کا تعلق مسلم کمیونٹی سے بتایا جاتا ہے ۔ اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا جارہاہے کہ سخت مشکل حالات میں بھی مسلمان طلبہ یہ امتحان پاس کرسکے ۔پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کامیاب امیدواروں کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ اگرچہ فرق زیادہ نہیں ۔ تاہم کامیاب امیدواروں کی تعداد کم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ پایا جاتا ہے ۔ یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ اس حوالے سے تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ آگے جاکر منتخب ہورہے امیدوار کسی طرح سے مسلم کمیونٹی کے لئے مخصوص ہوکر رہ جائیں گے ۔ بلکہ انہیں کسی مخصوص طبقے کے بجائے پوری قوم کی خدمت کرنا ہوگی ۔ اس سے زیادہ انہیں ملکی مفادات کا خیال کرنا ہوگا ۔ جس سطح پر اور جہاں کہیں بھی انہیں کام کرنے کا موقع ملے گا ان کی اولین ترجیح اپنی برادری نہیں بلکہ ملکی مفاد ہوگا ۔ جب ہی انہیں قبول کیا جائے گا اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع ملے گا ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ان کی کامیابی سے دوسرے نوجوانوں کو حوصلہ ملے گا اور وہ اس کی دیکھا دیکھی محنت کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہ بات واضح ہے کہ ذہین اور محنتی افراد کے لئے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں ۔ بلکہ ایسے نوجوان کہیں بھی رہتے ہوں ، کسی بھی طبقے سے ان کا تعلق ہو اور ان کی مذہبی شناخت کیسی بھی ناپسند ہو ۔ لیکن قابل اور باصلاحیت ہوں تو انہیں آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا ۔ یہ ایک سیاسی نعرہ تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو پس پشت ڈالا جاتا ہے ۔ ان کی صلاحیتوں کو دبایا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہم پورے ذوق و شوق سے محنت کریں اور مایوسی کا شکار نہ ہوجائیں تو آگے بڑھنے کے مواقع آج بھی ہیں ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے ۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ کہ مسلمان صحیح خطوط پر آگے بڑھنے سے قاصر ہیں ۔ جس طرح سے دوسری اقلیتیں کام کرکے مقابلاتی امتحانوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں مسلمان ایسا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ورنہ کیا بات ہے کہ تیس کروڑ مسلمانوں میں صرف تیس نوجوان سیول سروسز کا امتحان پاس کرپائے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ فی کروڑ میں سے صرف ایک نوجوان اس امتحان کو پاس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
انگریزوں کے زمانے میں جب علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی گئی تو مقصد یہ تھا ک دوسرے طبقوں کے ساتھ مسلمان بھی سرکاری دفاتر میں کام کرتے نظر آئیں ۔ اس زمانے میں ایک گروہ ایسا بھی سامنے آیا جس نے اس خیال کی مخالفت کی اور اسے اسلام دشمنی سے تعبیر کیا ۔ لیکن آگے جاکر معلوم ہوا کہ یہ ایک بہتر سوچ تھی ۔ انگریزوں کے جانے کے بعد علی گڑھ کے یہی فارغین جنہیں ہم اسلام کے باغی قرار دے چکے تھے مسلمانوں کا سہارا بنے ۔ بلکہ آج تک یہی لوگ ہماری نسل کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ اس خیال کی مخالفت نہ کی گئی ہوتی اور اسلام کے حامی کالج کا حصہ بنے ہوتے تو ملک کی آزادی کے بعد ان کے ذریعے مسلمانوں کی صحیح رہنمائی ہوجاتی ۔ اس کا خسارہ ہم آج تک اٹھارہے ہیں اور وہ لوگ جو علی گڑھ کی مخالفت میں آگے آگے تھے آج بھی مسلمانوں کی اجتماعی ترقی میں سد راہ بنے ہوئے ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ ایسے مولوی جنہوں نے دینی درس گاہوں کے نام پر شاندار دکانیں کھولی ہیں مسلمانوں کو زندگی کی اصل جدوجہد سے دور رکھے ہوئے ۔ ان دکانوں سے ان کے مالکان کی اپنی تجارت خوب ترقی کررہی ہے ۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ مسلمانوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کررہی ہیں ۔ اس حوالے سے خوشی کی بات یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی کے اندر جو کند ذہن اور نااہل لوگ ہیں وہ سب ان ہی مدرسوں میں جمع ہوئے ہیں ۔ یہ مدرسے نہ ہوتے تو مسلمانوں کے لئے ایسی نسل کو پالنا مشکل ہوتا جو کسی طور آج کی دنیا میں فٹ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ مدرسوں کے چلانے والے اور ان کے اندر پلنے والے طلبہ کی کثیر تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مروجہ اسکولوں کے اندر چوتھی یا پانچویں جماعت سے کسی بھی صورت میں آگے نہ بڑھتے ۔ اس حوالے سے ان کی منت ہے کہ یہ ذہنی طور مفلوج نسل کو یہاں پال رہے ہیں اور انہیں باکمال افراد قرار دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا IQ بھیڑ بکریوں سے بھی کم معلوم ہوتا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ ان مدرسوں میں لگے کھونٹوں کے ساتھ لگے رہتے ہیں ۔ یہ جگہیں کسی طور صحیح و سالم دماغ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے رہائش کے لائق نہیں ہیں ۔ یہاں بھیک پر پلنے والے افراد سے یہ توقع ہر گز نہیں کی جاسکتی کہ دین و دنیا کے لئے یہ کسی طور خدمت کا کام انجام دے سکتے ہیں ۔ ان سے یہ امید لگانا کہ سیول سروسز کے امتحان میں بیٹھیں گے دیوار کے ساتھ سر مارنے کے مترادف ہے ۔ اس کے باوجود مسلم دانشوروں کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ ہم ایسے باوقار اداروں میں اپنی کمیونٹی کے افراد کی تعداد میں اضافہ کیسے کرسکتے ہیں ۔ معلوم ہے کہ کئی ادارے اس حوالے سے قابل تحسین کام انجام دیتے ہیں ۔ لیکن اس پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ اس میں اضافے کی ضرورت ہے ۔ جب ہی مسلم کمیونٹی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔
