
پہلی جنگِ عظیم کے اختتام تک فلسطین، سلطنتِ عثمانیہ کے حصے کے طور پر ترکیے کی زیرِ حکمرانی علاقہ تھا۔ اس کے بعد یہ برطانوی حکومت کے نام نہاد ’’برطانوی مینڈیٹ‘‘ کے تحت آ گیا۔ اس عرصے کے دوران – جس کی نشاندہی یورپ میں بڑھتی ہوئی سامیت دشمنی سے ہوئی تھی – دنیا بھر سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین منتقل ہونا شروع ہوگئی، جسے وہ اپنا آبائی وطن مانتے تھے یعنی کہ’’ ایریٹز اسرائیل‘‘۔ ان کے مطابق یہ وہ وعدہ شدہ سرزمین تھی جہاں یہودی ہمیشہ رہتے چلے آئے تھے، اگرچہ بہت کم تعداد میں۔
نازی جرمنی میں ہولوکاسٹ کے تجربے کے بعد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے لیے اقوامِ متحدہ کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا تھا۔ عرب لیگ نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا تاہم یہودی ایجنسی برائے فلسطین نے قبول کر لیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی نئی ریاست کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے ردِ عمل کے طور پر، پانچ عرب ریاستوں کے اتحاد نے نئے ملک اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا، لیکن بالآخر 1949 میں اسرائیل کے ہاتھوں انھیں اسرائیل کے ہاتھوں شکست سامنا کرنا پڑا تھا ۔ جنگ سے پہلے، 200,000 سے 300,000 فلسطینی پہلے ہی اسرائیل چھوڑ کر جاچکے تھے یا جانے کے لیے مجبورکیے جا چکے تھے اور لڑائی کے دوران مزید 300,000 سے 400,000 فلسطینی بے گھر ہو گئے تھے۔ مجموعی اعداد و شمار 700,000 افراد کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں۔
جنگ کے دوران 400 سے زائد عرب دیہات تباہ ہوئے۔ جب کہ دونوں طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں، ’’دیر یاسین‘‘ کا قتل عام – تل ابیب اور یروشلم کے درمیان شاہ راہ پر واقع ایک گاؤں – آج تک فلسطینیوں کی یادداشت میں خاص طور پر کندہ ہے جس میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے۔ اس نے فلسطینیوں میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا دیا اور بہت سے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پرمجبور کردیا۔
جنگ کے اختتام تک، اسرائیل نے 1947 کے اقوام متحدہ کی تقسیم کے منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر فلسطینیوں کے لیے مختص کیے گئے تقریباً 40 فیصد علاقے پر اپنا غیر قانونی قبضہ کر لیا تھا۔
یوم نقبہ کی اصطلاح 1998 میں اس وقت کے فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے وضع کی تھی۔ انہوں نے اس تاریخ کو فلسطینی وطن کے نقصان کی یاد میں سرکاری دن کے طور پر مقرر کیا تھا۔
فلسطینی ہجرت
زیادہ تر فلسطینی پڑوسی عرب ممالک میں بے وطن پناہ گزینوں کے طور پر ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہوئے، صرف ایک چھوٹی تعداد مغربی ممالک میں ہجرت کرنے میں کامیاب رہی۔ آج تک، اگلی نسل کے فلسطینیوں کی صرف ایک چھوٹی تعداد نے دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہے یا شہریت حاصل کی ہے۔ اس کے نتیجے میں، مشرق وسطیٰ میں اس وقت تقریباً 6.2 ملین فلسطینیوں کی اکثریت یعنی کہ ان کی تیسری یا چوتھی نسل ابھی تک بے وطن پناہ گزیں مانی جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی، UNRWA کے مطابق، خطے میں زیادہ تر فلسطینی اب بھی پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں کے شہروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر غزہ کی پٹی، مقبوضہ مغربی کنارے، لبنان، شام، اردن اور مشرقی یروشلم میں مقیم ہیں۔
فلسطینیوں کی واپسی کا کیا حق ہے؟
1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 کے ساتھ ساتھ 1974 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 3236 اور پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلق 1951 کے کنونشن کے مطابق، فلسطینیوں کو جو فلسطینی پناہ گزین تصور کیے جاتے ہیں، ان کو’’واپس اسرائیل آنے کا حق‘‘ حاصل ہے۔
تاہم اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے ’’حقِ واپسی‘‘ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر تی ہے کہ اس کا اصل مقصد یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کی شناخت کا خاتمہ کرنا ہے ۔ اسرائیل فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کی ذمہ داری سے انکار کرتا ہے اور جواباً کہتا ہے کہ 1948 سے 1972 کے درمیان 800,000 کے قریب یہودیوں کو مراکش، عراق، مصر، تیونس اور یمن جیسے عرب ممالک سے بے دخل کردیا گیا تھا اور ان کے لیے پناہ کا واحد مقام اسرائیل ہی تھا۔
اس کے باوجود اسرائیل اور فلسطینی وفود میں اس مسئلے پر بات چیت بھی جاری رہی۔جنوری 2001 میں مصر میںاسرائیلی اور فلسطینی وفود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 پر عمل درآمد کرنے کے لیے بات چیت کی تھی۔ ان مذاکرات میں امریکہ اور برطانیہ سمیت،دیگر مغربی ممالک نے مسئلے کے حل کے لیے اپنا ووٹ دیا تھا، لیکن آج تک ہم فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے انصاف ہوتے دیکھنے سے بہت دور ہیں۔
درحقیقت، فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں فلسطینی قیادت یا موجودہ اسرائیلی حکومت سے بہت کم توقعات ہیں۔ سروے میں، دو تہائی فلسطینیوں (66 فیصد) نے کہا کہ وہ فلسطین کے ساتھ کامیابی کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے کسی بھی اسرائیلی حکومت – نہ بائیں بازو اور نہ ہی دائیں بازو پر اعتماد کرتے ہیں۔ پناہ گزینوں کا مسئلہ کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اسی وقت، نصف سے زیادہ فلسطینیوں (51 فیصد) نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے اپنی موجودہ قیادت پر بھی اعتماد نہیں کرتے ہیں۔
اصل میں صیہونی تحریک کو آبادکاری کی استعماری منطق سے آگے بڑھایا گیا۔ آبادکاری، نوآبادیاتی تسلط کا ایک طریقہ ہے جس کی خصوصیت مورخ پیٹرک وولف نے ’’ختم کرنے کی منطق‘‘ سے تعبیر کی ہے۔ آبادکار نوآبادیاتی حکومتیں مقامی لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، یا کم از کم ان کی سیاسی خود مختاری کو ختم کرنا چاہتی ہیںجس کے ذریعے زمین اور اس کے قدرتی وسائل کو ضبط کرنا اصل مقصد ہوتا ہے۔
نامور یہودی امریکی دانشور، نوم چومسکی نے مشاہدہ کیا کہ’’آبادی نوآبادیات سامراج کی انتہائی اور افسوسناک شکل ہے۔‘‘ آبادکار استعمار کی پہچان بے رحمی اور قانون، انصاف اور اخلاقیات کی بے توقیری بھی ہے۔
دراصل صہیونی تحریک اگر بے رحم نہیں تو کچھ بھی نہیں تھی۔ اس نے مشترکہ بھلائی کے لیے مقامی عرب آبادی کے ساتھ تعاون کرنے کا منصوبہ کبھی بھی نہیں بنایا۔ اس کے برعکس، اس نے ان کی جگہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ صہیونی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور برقرار رکھنے کا واحد طریقہ عربوں کی ایک بڑی تعداد کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کی سرزمین پر قبضہ کرنا تھا۔
شروعات سے ہی اسرائیل برطانوی سیاست دانوں کی مدد سے اور بعد کے سالوں میں امریکی حمایت سے نیا ملک قائم کرنے اور علاقے پر قابض ہونے میں کامیاب رہا۔ اس جیسی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔ اگر ہمیں مسئلہ فلسطین کو حل کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے پاس واحد قابل اعتماد آپشن صرف یہ ہے کہ وہ برطانیہ اور امریکہ دونوں پر زور دے کہ وہ اس مسئلے پر تصادم یا دو طرفہ رویہ اختیار نہ کریں بلکہ اس کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کریں اور فلسطینیوں کو ان کا حق واپس دلانے کا عزم کریں۔