تحریر:زکریا ورک
اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں ماہ رمضان میں چند نئے قواعد و ضوابط کا اعلان کیا گیا ہے جن کے مطابق نماز براڈ کاسٹ نہیں کی جا سکتی نیز افطار مساجد میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا اعلان سعودی اسلامک افئیرز منسٹری نے کیا ہے جس کی وجہ سے کچھ مسلمانوں نے اپنی خفگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نئی پالیسی کی وجہ سے گویا کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کو پبلک لائف میں نکال دیا جائے۔
ان پا بندیوں کا اعلان پچھلے سال 2023 میں کیا گیا تھا جس کے مطابق لاؤڈ سپیکرز پر پا بندی، بغیر شناخت کے اعتکاف، نمازوں کا براڈ کاسٹ کیا جانا، اور مساجد میں افطار کر نے پر ممانعت ہے۔ اسی طرح مساجد کو عطیات نہیں دیے جا سکتے، نمازوں کا وقت چھوٹا رکھا جائے، بچے مساجد میں نماز کے لئے نہیں آ سکتے، اور تمام نمازی اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ مسجد میں لے کر آئیں۔ ما سوا مکہ اور مدینہ میں مرکزی مساجد میں لاؤڈ سپیکرز کی آواز کم رکھی جائے، نمازوں کو براڈ کاسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ نمازوں میں خاص خاص دعائیں پڑھی جائیں۔ اگر مساجد میں کیمرے ہوں تو ان سے نمازیوں یا امام کی تصاویر نہ لی جائیں۔
اس بات کی اجازت امام مسجد دے گا کہ کون شخص مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتا ہے۔ جو لوگ روزے رکھ رہے ہیں ان کے لئے عطیہ جات جمع کرنا ممنوع ہے۔ اگر روزہ داروں کے لئے کھانے کا انتظام کر نا ہے تو وہ خاص مقرر شدہ جگہوں پر ہوں۔ جس کو بعد طعام صاف کیا جائے۔ افطار کے لئے ٹینٹ یا عارضی کمرے نہیں بنائے جا سکتے۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں بھی ایسی پا بندیاں لگائی جائیں گی یا نہیں؟ ایسے لگتا ہے کہ یورپ میں اسلام پھیل رہا ہے مگر سعودی عرب میں یورپ پھیل رہا ہے۔ رفتہ رفتہ مذہبی عناصر کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا رہا ہے۔
