• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

رحمٰن راہی :کشمیری شعریات کا میزان

Online Editor by Online Editor
2023-09-24
in ادب نامہ
A A
آہ!پروفیسر رحمان راہیؔ
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحریرـفدا فردوس

کسی بھی خطے کی مالی ترقی میں سیاحت کا نمایاں رول ہوتا ہے ۔ قدرت نے کسی علاقے کو حسین مناظر سے نوازا ہوتو اس علاقے کی مجموعی ترقی میں سیاحت کا اہم حصہ ہوتا ہے ۔ سیاحتی صنعت کو فروغ دیا جائے تو اس سے ملکی آمدنی کو بھی بڑھاوا دیا جاسکتا ہے ۔ آج کل کئی ممالک اپنا جی ڈی پی اسی ذریعے سے آگے بڑھارہے ہیں ۔ کشمیر قدرتی مناظر کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے ۔ ان مناظر کو دیکھنے کے لئے کافی سیاح یہاں آتے ہیں جس سے نہ صرف کشمیر بلکہ ملکی معیشت کو سہارا ملتا ہے ۔ کشمیر کو جنت بے نظیر کہا جاتا ہے اور اسے ہندوستان کا تاج بھی ماناجاتا ہے ۔ اس کی وادیاں ، پہاڑ ، آبشار ، برفانی تودے ، ندی نالے ، دریا جھیل غرض سب کچھ بڑا ہی دلفریب ہے ۔کشمیر کا ہر ذرہ اور ہر علاقہ سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے ۔ اس کو ملکی سطح پر سیاحت کے لئے فروغ دینا بہت ضروری ہے ۔ اس طرف توجہ دی جائے تو سیب صنعت سے بڑھ کر سیاحتی صنعت عوام کے لئے فائدہ بند اور آمدنی کا بڑا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ آج کل کے دور لوگ بڑی تعداد میں سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں اور سیاحت کو بڑا پسند کرتے ہیں ۔ کشمیر کو اس طرح کا مرکز بنایا جائے تو یہ پورے خطے کے لئے امن و ترقی کا ضامن بن سکتا ہے ۔

سیاحت کسی جگہ کے قدرتی مناظر سے لطف اٹھانے تک محدود نہیں ۔ بلکہ ٹورازم سیکٹر کی بات کی جائے تو اس میں ٹرانسپورٹ سے لے کر سیر وتفریح تک زندگی کا ہر شعبہ آتا ہے ۔ پر لطف حرکات و سکنات سے لے کر تجارت تک ہر سرگرمی اس کے دائرے میں آتی ہے ۔ بلکہ مختلف تہذیبوں کا آپس میں گھل مل جانا اس کے دائرے میں شامل ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ذریعے سے مختلف قوموں کے درمیان تہذیبی لین دین بھی ہوتا ہے ۔ زبانوں کی جان پہچان ، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ ، اقدار کا احترام اور ایسے ہے بہت سے دائرے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ ہم سیکھ جاتے ہیں کہ مقامی تہذیب و تمدن اور پرانے زمانے کی باقیات کو کیسے محفوظ کیا جاتا ہے ۔ پرانے نشانات کو محفوظ رکھنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے ۔ مقامی ناچ ، گانا بجانا ، لباس اور ایسی ہی بہت سی چیزوں کو محفوظ کرنے گر آتے ہیں ۔ کشمیر میں سیاحتی سہولیات کو فروغ دینا کوئی بری بات نہیں ۔ بلکہ اس ذریعے سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ کرنا آسان ہوگا ۔ اس ھوالے سے یہ بات بڑی اہم ہے کہ اس کو قدرت نے ایسے مالا مال کیا ہے کہ اس کو ہر موسم میں سیاحوں کے لئے دلکش بنایا جاسکتا ہے ۔ سرما ہو یا گرما ہر دونوں موسموں میں سیاح یہاں آکر لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔ ہر جگہ اپنے طور سیاح کا دل لبھانے کا باعث ہے ۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاکر نئے مناظر سامنے آتے ہیں ۔ یہاں تو ہر علاقے کا اپنا نظارہ اور اپنی خوبصورتی ہے ۔ کوئی بھی اور کسی بھی خطے سے آکر یہاں ہر شخص اپنی دلچسپی کے مراکز تلاش کرسکتا ہے ۔ بس یہ بات ذہن میں رہے کہ سیاحوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ہموار علاقوں کے ساتھ پہاڑی چوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اس لحاظ سے سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے ۔ کشمیر کرہ ارض پر ایسا مقام ہے جہاں لوگ کام سے چور ہوکر آجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے یہاں پرسکوں ماحول ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اپنی تھکن اتار سکتے ہیں ۔ آج کل کے زمانے میں لوگ ذہنی اور جسمانی طور تھک چکے ہوتے ہیں اور کہیں آرام سے ٹھہرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے کشمیر سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے ۔ بس انہیں یہاں آکر مزید تھکانے کے بجائے آرام و سکون مہیا کرنا ہے ۔ ہماری نظر گلمرگ ، پہلگام اور دوسرے کچھ سیاحتی مقامات تک محدود ہے ۔ ایسا سوچنا غلط ہے ۔ کشمیر کا کوئی گائوں یا پہاڑ ایسا نہیں جو سیاحت کے لئے موذون نہ ہو ۔ لیکن ہم نے ایسی جگہوں کو نظر انداز کرکے وہاں کوئی کام نہیں کیا ۔ اسی طرح مذہبی مقامات کو مذہبی سیاحت کے لئے استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ ایسی بہت سی جگہیں ہیں جن کو اس مقصد کے لئے فروغ دیا جاسکتا ہے ۔ امرناتھ گپھا ، شاردہ پیٹھ ، پیر کی گلی اور بابا ریشی زیارت کی طرح بہت سے مقامات ہیں جن کو سیاحتی نقشے پر لانا ضروری ہے ۔ پھر دیکھئے نتائج کیسے فائدہ مند ثابت ہونگے ۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

دیسی کُکڑ کے پَر

Next Post

افسانچے

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
افسانچے

افسانچے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan