تحریر:ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
ہجرت کے سفر میں بڑے دلچسپ اور سبق آموز واقعات پیش آئے جن میںایک معجزانہ اور حیرت انگیز وہ واقعہ بھی ہے جس کا تذکرہ احادیث و سیرت کی کتابوں میں ہجرت کے بیان میںاہتمام سے کیا گیا ہے۔ یہ ناقابل فراموش واقعہ دوران سفر صحراء قُدید سے گزرتے ہوئے ام معبدخزاعیہ کے خیمہ میںپیش آیا۔ ام معبدکا اصل نام عاتکہ بنت خالدبن منقذ تھا، یہ صحابی ٔ رسول حبیش بن خالد الاشعر خزاعی کی ہمشیرہ تھیں۔ یہ معمر خاتون بڑی ذہین و فطین، شستہ وشگفتہ زبان کی مالک، دلیر اور بہادر تھیں۔ ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں، لیکن دریا دل تھیں، اپنے خیمہ کے باہر مہمانوں کے استقبال میں بیٹھا کرتی تھیں اور ادھر سے گزرنے والے قافلوں کو کھلاتی پلاتی رہتی تھیں۔ نبیؐ کریم ہجرت کے سفر میں جب ان کے خیمہ کے پاس سے گزرے تو آپ ا اپنے رفقاء سفرحضرت ابو بکر صدیقؓ، عامر بن فہیرہؓ اور عبد اللہ بن اریقط کے ساتھ ان کے خیمہ میں تھوڑی دیر کیلئے فروکش ہوئے۔ انہوں نے ام معبدسے پوچھا کہ آپ کے پاس کھجور یا گوشت ہے؟ ہم خریدنا چاہتے ہیں۔ یہ خشک سالی کا دور تھا، ہر گھر میںبھوک اور افلاس کا بسیرا تھا، انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اگر کچھ ہوتا تو مَیں آپ کی مہمان نوازی کرتی، آپ کو فروخت کیوں کرتی!
آپ اکے رفقاء سفر بالکل بے توشہ ہوچکے تھے، ان کے پاس کھانے کو اب کچھ بھی نہیں رہ گیا تھا، ایسے میں سرکار دو عالم ا کی نظر خیمہ کے ایک گوشہ میں کھڑی ایک بکری پر پڑی۔ آپ ا نے دریافت فرمایا: ’’اے ام معبد! یہ بکری کیسی ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا : اتنی لاغر ہے کہ ریوڑ کے ساتھ بھی نہیں چل سکتی۔ آپ ا نے فرمایا: کیا اس کے تھن میں کچھ دودھ ہے؟ انہوں نے کہا: اگر اس کے تھنوں میں دودھ ہوتو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ضرور حاصل کرلیں۔ آپ ا نے بکری اپنے سامنے منگوائی اورایک ایسا برتن طلب کیا جووہاں موجود لوگوں کے لئے کافی ہوجائے۔ بکری نے بڑی آسانی سے خود کو آپ ا کے حوالہ کردیا اور جگالی کرنے لگی، اللہ کا نام لیتے ہوئے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا، اور زبان نبوت سے یہ دعا نکلی: ’’اے اللہ! ام معبد کی بکری کو ان کے لئے بابرکت بنا۔‘‘
پھر کیا تھا، ایسا لگتا تھا دودھ کا چشمہ ابل آیا ہو یا جوئے شیر رواں ہو، آپؐ نے دودھ دوہنا شروع کیا، دودھ اتنی وافرمقدار میں نکلا کہ برتن لبالب بھر گیا، آپؐ نے پہلے ام معبد کو پھر صحابۂ کرام کو پلایا، لوگوں نے خوب سیرہوکر بار بار پیا، جب سب لوگ بالکل آسودہ اور شکم سیر ہوگئے تو آپؐ نے یہ کہتے ہوئے خود نوش فرمایا کہ: ’’لوگوں کو پلانے والا آخرمیں پیا کرتاہے۔‘‘
دوسری بار آپ ا نے اس بکری کو پھر دوہا اور اس مرتبہ جو دودھ نکلا وہ ام معبد کے پاس چھوڑ کر وہاں سے آگے کوچ کرگئے۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد ام معبد کے شوہر ابو معبداجثم بن ابی الجون خزاعی چند دبلی پتلی لاغر بکریوں کو ہنکاتے ہوئے لے کر آئے۔ ابو معبد نے گھر میں دودھ دیکھا تو چونکے اور پوچھا: ام معبد! یہ دودھ کہاں سے آیا؟ گھر میں تو دودھ دینے والی بکریاں نہیں تھیں؟ انہوں نے کہا؟ جناب! یہ بکریوں کا کمال نہیں، واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک بڑا مبارک آدمی آج ادھر سے گزرا، کیا اس کے اوصاف بیان کروں؟ کہا: نہیں نہیں، بتاؤ، مجھے تو لگتا ہے یہ وہی شخصیت ہیں جن کی تلاش میں قریش سر گرم ہیں ۔
اب ام معبدکی فصاحت کے جوہر کھلتے ہیں اور وہ نبی کریم ا کا سراپااس طرح بیان کرتی ہیں کہ آج تک پڑھنے والا خود کو وہاں موجود پاتا ہے۔ سلام ہو نبی عربیؐ پر، آپؐ کی آل پر، اصحاب پر اوراس گمنام خاتون ام معبد پر جس کے تذکرہ کو نبی آخر الزماں کی ایک نگاہ نے دوام عطا کردیا۔ امّ معبد نے جو کچھ بیان کیا وہ اس طرح تھا:
’’ میں نے ایک صاحب کو دیکھا جو بڑے حسین اور خوبرو تھے، چہرہ ان کا نور سے دمک رہا تھا، بڑے خوش اخلاق تھے، سراپا حسن خداداد، سیاہ چشم، شیریں دہن اور دراز گردن، آواز میں کشش تھی، داڑھی خوب گھنی تھی، پلکیںبہت باریک، ابرو کے بال ایک دوسرے میں پیوست اور بٹے ہوئے تھے۔ وہ جب خاموش ہوتے تو بڑے پر وقار نظر آتے اور گویا ہوتے تو بڑے بارونق دکھائی دیتے، دور سے دیکھنے میں بھی حسین و جمیل اور قریب سے بھی خوب ترا ور دلکش، آپ کی باتیں بڑی شیریں اور معتدل تھیں، نہ گفتگو میں دراز نفسی سے کام لے رہے تھے، نہ لب ہلانے پر اکتفا فرما رہے تھے، آپ کی باتیں گویا لڑیوں میں پروئے ہوئے موتی کے دانے ہوں جو ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہوں، میانہ قد ، نہ بہت دراز نہ پستہ قد گویا دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ ہو، جو ان تینوں میں سب سے بھلی لگتی ہو، اور سب سے مناسب حجم کی ہو، آپ کے رفقاء بھی ایسے تھے جو بر وقت آپ کی خدمت و اکرام کے لئے چشم وابرو کے ایک اشارہ پر دوڑ پڑتے تھے، جب وہ کچھ ارشاد فرماتے تو سب خاموش ہوکر سنتے، کوئی حکم دیتے تو لپک کر اسے بجالاتے، آپ کے ارد گرد اطاعت و جاںنثاری کے جذبہ سے بھر پور ایک جماعت تھی، آپ ترش رو یا حواس باختہ نہ تھے۔ ‘‘
ابو معبد کہتے ہیں: ’’ خدا کی قسم یہ وہی شخص ہیں قریش جن کی تلاش میں ہے ، میں چاہتا تھا کہ ان سے ملوں، اگر کوئی راہ نکلتی ہے تو میں ضرور ان سے ملوںگا۔ ‘‘
قصہ کے راوی عبد الملک کہتے ہیں کہ ’’ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ام معبد نے ہجرت کی، پھر اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ا سے جا ملیں۔ ‘‘
یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ حج کے زمانہ میں ازواج مطہرات سے ام معبد کی ملاقات بھی ہوئی،اور حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت کے اخیر میں یا حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں ان نیک بخت و نیک سرشت خاتون کاا نتقال ہوا۔
