تحریر:عبدالصمد بھلر
تصوف اور صوفی کے الفاظ کی تحقیق میں علمائے تصوف نے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے بعض علماء اس کی لسانیاتی ( Etymology) تعریف بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ صوف سے نکلا ہے۔ یعنی صوفی وہ ہے جس نے صوف کا لباس پہنا ہو۔ صوف اونی کھادی ( ایک قسم کا موٹا کپڑا ) کو کہتے ہیں جو عیسائی راہب پہنا کرتے تھے۔ یہ کھردرا کپڑا ہوا کرتا تھا اس سے شاید خود کو عبادت کے لیے ایکٹو رکھنا مقصود تھا کیونکہ نرم اور ریشمی لباس میں انسان آرام دہ محسوس کرتا ہے اور اس سے کسی حد تک انسان میں لغزش اور سستی بھی پیدا ہوتی ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ایک طرف ہونا یعنی ترک دنیا کر کے اللہ کی طرف مائل ہو جانا اور ہر وقت ذکر و اذکار میں مشغول رہنا۔ بعض کے نزدیک صوفی دین کی اول صف میں ہوتے ہیں یعنی زیادہ پرہیزگار ہوتے ہیں اس لیے انہیں صوفی کہا جاتا ہے جبکہ بعض نے ان کو اصحاب صفہ کی محبت اور پیروی کرنے والے قرار دیا ہے
سب سے پہلے آٹھویں صدی عیسوی خراسان ( موجودہ ایران) میں ابو ہاشم کوفی کو صوفی کہہ کر پکارا گیا۔
تصوف خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ان لوگوں کا ماننا ہے کہ عرفان الہی تک پہنچنے کے لیے کشف و اشتراک ضروری ہے۔
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں کہ تصوف شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے۔ ظاہری اور پوشیدہ گناہ چھوڑنا تصوف کا مقصد ہے۔ تصوف میں انسان کے دل اور نفس کو پاک و صاف کر کے اس کی اصلاح کی جاتی ہے اصلاح تصوف کے دو اجزاء ہیں۔
1۔ ظاہری اصلاح
2۔ باطنی اصلاح
ظاہری اصلاح سے مراد یہ ہے کہ ظاہری اعضا سے صادر ہونے والے گناہ مثلاً جھوٹ ’غیبت‘ چوری ’زنا وغیرہ چھوڑ دیے جائیں۔
باطنی اصلاح سے مراد یہ ہے کہ عقائد درست ہو جائیں اللہ کی ذات و صفات پر ایمان مکمل ہو جائے مثلاً بغض ”کینہ ’تکبر اور دیگر باطنی برائیوں کی اصلاح ہو جائے۔
باطنی طہارت دلوں کی پاکیزگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ شرم و حیا اگر دل میں ہوگی تو ہی آنکھ میں اس کی جھلک نظر آئے گی۔ خوف الہی اگر دل میں ہو گا تو ہی یہ آنکھ اشکبار ہو گی۔
جب تک دل سے دنیا کی محبت اور خواہشات ختم نہیں ہوتیں تب تک اللہ تبارک و تعالی کی ذات پاک سے قربت ممکن نہیں۔
خواجہ مجذوب فرماتے ہیں
~ تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
بہت سے صوفیا راہبانیت میں غلو کرتے تھے۔ الحاکم ترمذی صوفی گزرے ہیں انہوں نے کہا کہ اولیاء کے پاس بھی ایسی ہی مہر ہوتی ہے جیسی کہ انبیاء کی۔ یہ خیال شیخ محی الدین ابن عربی نے انہی سے اخذ کیا تھا اور اپنے اپ کو خاتم الاولیاء کہا تھا۔
اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ جس طرح صحابہ میں حق چار یار ہیں یعنی حضرت ابو بکر صدیق ’حضرت عمر‘ حضرت عثمان و حضرت علی رضہ اسی طرح صوفیا میں بھی حق چار یار مشہور ہیں یعنی بابا فرید ’شیخ بہا الدین‘ جہانیاں جہاں گشت اور شہباز قلندر۔
سالک اور مجذوب:
لفظ سالک کا مادہ اشتقاق ’سلوک‘ ہے۔ جس کے معانی ’راستے پر چلنے‘ کے ہیں۔ اسی طرح تصوف کی اصطلاح میں قرب الہی اور معرفت ربانی حاصل کرنے کے ذرائع اپنانے کو سلوک کہتے ہیں۔ اور اس راستے پر چلنے والے کو سالک کہا جاتا ہے۔
جبکہ مجذوب جیسا کہ لفظ سے ظاہر ہے ”جذب ہو جانے والا“ ۔
حضرت موسی علیہ السلام جب طور پہاڑ پے دیدار الہی کرنے پہنچے تھے تو اللہ کے نبی نور الہی کی تاب نہ لا سکے تھے اور بیہوش ہو گئے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ اللہ کے عشق میں مستغرق ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار تو اچھے برے کی تمیز بھی نہیں رکھ پاتے اور بعض اوقات تو غیر شرعی بات بھی کر دیتے ہیں۔ علم لکھتے ہیں کہ ہم ان کے اللہ کے ساتھ رابطے سے بے خبر ہیں۔ ہمیں ان پر کوئی لب کشائی نہیں کرنی چاہیے۔
مراقبہ و محاسبہ :
مراقبہ سے مراد نگرانی کرنا ’کسی چیز یا موضوع کو پوری توجہ دینا۔ تصوف میں مراقبہ سے مراد ہے کہ آپ ہر وقت اپنے نفس کی نگرانی کریں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے۔ اور اللہ سے ہمیشہ اور ہر وقت ڈرتے رہیں۔
وہ حدیث تو اپنے سن رکھی ہو گی کہ ”تم اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو ضرور یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے“ ۔ یہاں بھی یہی بات زیر بحث ہے کہ اپنی توجہ دوران نماز اللہ کی طرف مرکوز کرنی ہے۔
جبکہ محاسبہ کا لفظ ’حساب‘ سے ماخوذ ہے۔ اپنا حساب۔ روزانہ کی بنیاد پر کہ میں نے کوئی برا کام یا کوئی ایسی بات تو نہیں کر دی جس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔ آج میں نے کتنے اچھے کام کیے اور کتنے برے کام کیے ۔
حضرت عمر رضہ فرماتے ہیں :
” حاسبو اقبل انتا حاسبوا“
ترجمہ : ”اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے۔ “ ۔
قارئین یہ تو ایک راستہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سوتے جاگتے ’اٹھتے بیٹھتے اپنا مراقبہ و محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔ اور اللہ سے قریب ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔