ویب ڈیسک
افغانستان میں طالبان حکومت نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی انسانی حقوق پر جو قدغنیں لگائی ہے، اُن میں اہم ترین اور بڑا معاملہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کا ہے۔13 جون بروز جمعرات اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی ایجنسی یونیسیف نے ایک بیان میں کہا،’’ دنیا کا کوئی ملک ایسی صورتحال میں ترقی نہیں کر سکتا کہ جس میں آبادی کے نصف حصے کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔‘‘
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ایک بیان میں طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی دوبارہ اجازت دیں۔ انہوں نے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری سے اپیل بھی کی کہ وہ افغانستان کی لڑکیوں کی اس سلسلے میں مدد کرے۔ افغان لڑکیوں کے بارے میں یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے کہا،’’انہیں پہلے سے کہیں زیادہ اب اس کی ضرورت ہے۔‘‘اس ایجنسی کے اندازوں کے مطابق ایک ملین سے زیادہ افغان لڑکیاں طالبان حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندی سے متاثر ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی برقرار رکھنے کا عمل طالبان کو بطور افغانستان حکمران تسلیم کیے جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
2021 ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان دوبارہ کابل میں برسراقتدار آئے۔ طالبان لڑکیوں کو اسکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو اسلامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
طالبان اسلامی قوانین کی سخت ترین تشریح کو صحیح اسلام سمجھتے ہیں۔دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد ابتدائی طور پر طالبان نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند طرز حکومت اپنانے کا وعدہ کیا تھا تاہم عملی طور پر انہوں نے اس کے برعکس خواتین کو تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات جیسا کہ پارکس وغیرہ جانے سے بھی روک دیا۔ ان انتہا پسندوں نے اپنے کٹر نظریات اور سخت اقدامات کے تحت خواتین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔افغانستان میں 1990 ء کی دہائی میں بھی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی اور لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم کے حصول کے لیے اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اس طرح طالبان نے افغانستان کو دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا تھا، جہاں اس قسم کے قوانین رائج ہوں۔
مارچ کے ماہ میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ’’لڑکیوں پر پابندی‘‘ کے ساتھ ہوا تھا اور چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اسکول کے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریبات میں خواتین صحافیوں کو شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔
