پانی ہر ایک جاندار کی بنیادی ضرورت ہے۔یہ مخلوق کے لئے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے حکومتوں نے اسے بنیادی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے عوام تک پہچانے کو پہلی ترجیح دی ہے۔اس قدر بنیادی سہولیات ہونے کے باوجود بھی یوٹی جموں کشمیر کے ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں لوگ آج بھی اس سے محروم ہیں۔ ضلع ڈوڈہ کے اکثر پہاڑی علاقے آج بھی پانی کی عدم دستیابی کے شکار ہیں۔کرونا وائرس کے دور میں اس ضلع کے پہاڑی علاقوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔وہیں دوسری جانب ہر سال سردیوں میں جب کافی زیادہ برف باری ہوتی ہے اور آنے جانے کے تمام راستے بند ہو جا تے ہیں ایسے وقت میں بھی مقامی لوگوں کو پینے کے صاف پانی کے لئے مزید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔جموں کشمیرکے اس خوبصورت پہاڑوں کے دیہی علاقوں کی خواتین آج بھی میلوں دور سے اپنے سروں پر پانی اٹھا کر گھر لانے پر مجبور ہیں۔یہ نہ صرف ان کی صحت کے ساتھ نا انصافی ہے بلکہ ترقی یافتہ ملک کی شان پربھی ایک بدنما داغ ہے۔
اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن شاہنواز میر کا کہنا ہے کہ ضلع ڈوڈہ کے اکثر و بیشتر علاقے آج بھی پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس مسلہ کو کئی موقع پرانتظامہ کے سامنے بھی اٹھایا گیالیکن ابھی تک کوئی بھی مثبت کاروائی نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی عدم دستیابی سے لڑکیوں کی تعلیم پر بھی کافی زیادہ اثر پڑرہا ہے۔دن میں کئی بار پانی لانے میں مصروف ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقع میں برف باری کا سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے وقت میں پانی کی قلت سے مقامی لوگ بہت بے بس نظر آتے ہیں۔وہیں علاقع کے ایک اور سماجی کارکن آصف اقبال بٹ کہتے ہیں کہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں میں آج بھی خواتین کو قدیم زمانے کی طرح کافی دورسے پانی اٹھا کر گھروں تک لانا پڑتا ہے۔اس کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیمی زندگی پر بھی کافی زیادہ اثرات پڑرہے ہیں۔ ان کا اسکول چھوٹتا نظر آرہا ہے۔جو بہت ہی سنجیدہ مسلہ ہے۔ ان کے مطابق پہاڑی علاقوں میں ایک رواج بن چکا ہے کہ خواتین کوہی پانی اٹھا کر لانا ہے۔جو ان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔انہوں نے بتایا کہ تحصیل کاہرہ کا ایک علاقہ جو کنو کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس علاقے میں 30 سے زائد گھر ہیں جو تحصیل ہیڈ کوارٹر سے صرف چار کلو میٹر کی دوری پر واقع ہیں۔خواتین کے علاوہ اس علاقہ کے لوگ روزانہ دو سے زائد کلو میٹر کی دوری سے پانی گھوڑوں پربھی لاتے ہیں۔جس پر مہانہ ہزاروں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ایسے میں یہاں کا غریب کیسے اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے پینے کے پانی کا انتظام کرتا ہوگا؟ اس کا اندارہ لاگانا مشکل نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا بھی بہت آسان ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں کتنے پانی کا استعمال ہوتے ہیں اور ایک مزدور طبقہ کہاں سے اس روپے کا انتظام کرتا ہوگا؟
ان کے علاوہ جب ہم نے ایک انیس سالہ لڑکی رویسہ بانو سے بات کی تو ان کے افسردہ الفاظوں نے وقتی حالات کے تقاضے کو ظاہر کیے۔رویسہ نے بتایا کہ جب آج کے اس دور میں لڑکیاں سینکڑوں میٹر کی دوری تک سر پر پانی اٹھا کر گھر پہنچاتی ہیں تو یہ سوال انتظامیہ پر ہی کھڑا ہوتا ہے کہ وہ پہاڑی علاقوں میں کس طرح لوگوں کی راحت کے لئے پانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کر رہی ہے؟اس نے سوال کیاکہ جہاں مرکزی سرکار کی جانب سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ خواتین کو ہر طرح کی بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہے اور کئی مقامات پر اس بات کا ذکر بھی ہے کہ ان کی تعلیمی نظام کا سارا انتظام انتظامیہ خود کرے گی جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین آج بھی پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، تو اس کا یہ درد کون سنے گا؟ اس نے بتایا کہ اس پہاڑی علاقے میں کئی خواتین پانی کی تلاش میں برف کی زد میں آکر موت کی شکار ہوچکی ہیں۔لیکن پھر بھی حکومت یا انتظامہ کے کسی عہدے داران کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
علاوہ ازیں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کونسلر مہراج ملک سے اس مسلہ پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ضلع ڈوڈہ کے بیشتر پہاڑی علاقے کے لوگ آج بھی نہ صرف پانی بلکہ بجلی اور سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوران کونسل کئی مرتبہ پہاڑی علاقوں میں پانی نہ ہونے پر سوالات کیے گئے۔لیکن انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی معقول جواب نہیں ملا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انتظامیہ پہاڑی علاقوں کی طرف فوری اپنی توجہ مرکوز کرے کیوں نکہ اس علاقع میں سردیاں شروع ہوتے ہی برف باری کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور چھ ماہ تک برف جمی رہتی ہے۔اس ایام میں پہاڑی علاقہ کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مشکلات کو لے کر کئی مرتبہ گورنر انتظامیہ کے دربار میں بھی شکایات درج کی گئی، لیکن کوئی بھی ردعمل سامنے نہیں آیا۔انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ پہاڑی علاقوں کی طرف دھیان دے کیوں نکہ یہ علاقہ بہت زیادہ پچھرا ہوا ہے۔ان علاقوں میں اکثر مزدور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں،جن کی آمدنی اتنی نہیں ہے کہ وہ اپنی مزدوری سے اپنے لئے پینے کے صاف پانی کا انتظام کر سکیں۔
اس سلسلے میں جب ہم نے جونیئر انجینئر ٹھاٹھری اسامہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مرکزی سرکار کی جانب سے پہاڑی علاقوں کے لیے کروڑوں روپے واہ گزار کیے گئے ہیں۔ انتظامیہ بھی فوری طور پر کام شروع کرنے پر زور دے رہی ہے۔فی الحال کئی مقامات پر رینڈرنگ کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ آنے والے ایک سال میں ضلع ڈوڈہ کے تمام پہاڑی علاقوں میں پانی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے گی۔بہرحال یہ یقین حقیقت میں کب اور کیسے تبدیل ہوتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔(چرخہ فیچرس)