تحریر :پروفیسر خالد اقبال
ازروئے قرآن ریاست و حکومت کی تشکیل سے مقصودِ خداوندی زمین پر ایک ایسے انسانی معاشرہ کا قیام ہے جس میں انسان اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے احکامِ الٰہیہ کی اطاعت پر مبنی نظام نافذ کرے (یعنی اقامتِ صلوٰۃ و ایتائے زکوٰۃ ) اور افراد معاشرہ کی تربیت و اصلاح (نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے) کا فریضہ انجام دے۔ چنانچہ اسی مقصدِ الٰہیہ کے حصول کے لئے آغاز کار کے طور پر رسول اللہ ﷺنے مدینے کی پہلی اسلامی ریاست و حکومت قائم کی اور اس کے زیرِ اثر ایک ایسے اسلامی انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل فرمائی ،جس میں اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے ساتھ افرادِ معاشرہ کی تربیت و اصلاح حکمرانوں کا بنیادی فریضہ اور اولین ذمے داری قرار پائی ۔ آپﷺ کے بعد اس کام کو خلفائے راشدین ؓ نے بڑی جاں فشانی و سرفروشی کے ساتھ نہ صرف جاری رکھا، بلکہ اسے ترقی و عروج کی رفعتوں اور استحکام کی راہوں پر گامزن رکھتے ہوئے نئی منزلوں کی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔خلافت راشدہ کے بعد وہ حکومت و نظام جو زمین پر نیابت ِ الہٰی کی جیتی جاگتی تصویر تھا اپنے عروج کی طرف چلتے ہوئے یک دم’’صراطِ مستقیم‘‘ سے ہٹنا شروع ہو گیا، جس کا سفر وہاں جاکر ختم ہوا، جہاں اجتماعی تنظیم، نظامِ خلافت کے بجائے شخصی عظمت کے مینار تعمیر کرنے لگی ،شخصی اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں اسیر ہو کر جب خلافت ملوکیت اور حاکمیت ِالٰہیہ ذاتی حکومت میں تبدیل ہوئی تو مسلمان حکمرانوں نے’’احکامِ خداوندی کی اطاعت کرتے ہوئے افراد معاشرہ کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح‘‘کے اصل فرض اور ذمہ داری کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اس غفلت اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کے بنیادی اسلامی ادارے صلوٰۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف نہی عن المنکر جمودو تعطل کا شکار ہوگئے ۔
ان حالات میں اس وقت کے علماء و صلحائے امت کے ایک گروہ (جس میں مفسرین، محدثین ، فقہاء، فلاسفہ اور معلمین اخلاق سب شامل تھے ) نے اصلاح معاشرہ اور تزکیہ و تربیتِ افراد کی حکومتی وریاستی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہوئے ایک عملی و معاشرتی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا، تا کہ مسلمانوں کو فکر و عمل کی گمراہی و بے دینی کے سیلاب ِبلا خیز سے بچایا جا سکے۔قیامِ واحیائے دین اور غلبۂ اسلام کی ایسی ہی ایک معاشرتی اصلاحی تحریک کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں عباسی دورِ حکومت میں عالمِ اسلام کے بطلِ جلیل جید صوفی اور با کمال ولی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے کیااور عباسی دور حکومت میں شخصی حکمرانی کی پیدا کردہ معاشرتی خرابیوں اور دینی بگاڑ اور فکر و عمل کے انحطاط کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جس دور میں اصلاحِ معاشرہ اوردعوتِ دین کا فریضہ لے کر اٹھے،وہ مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش اور اسلام کے لئے بڑی ابتلاء کا زمانہ تھا ۔ ایسے پُر فتن، معاشرتی بگاڑ، اخلاقی زوال اور دینی انحطاط کے دور میں آپؒ نے مسلمانوں کی معاشرتی و اخلاقی اصلاح اور احیائے دین کا عظیم فریضہ انجام دیا۔ آپ کے دور میں یہ فکر بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی کہ ’’آیا انسان کو ایسا مسلک دینی اختیار کر لینا چاہئے کہ وہ دین کی طرف سے بے پروا ہو جائے اور محض رسمی اور رواجی طور پر مسلمان کہلائے یا ایسا دینِ عقل پرست اختیار کرنا چاہئے جو اہلِ دین کے مسلّمات و عقائد سے متصادم ہو؟‘‘ اس فکر سے اسلامی معاشرے کا ہر فرد متاثر ہو رہا تھا۔ ملت ِ اسلامیہ کا سیاسی و فکری انحطاط اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ خلقِ قرآن، اعتزال، فلسفۂ الحاد اور باطنیت کے فتنوں نے مسلمانوں کے اہلِ علم طبقہ میں تشکیک و الحاد اور عام لوگوں میں عملی بے راہ روی کے بیج بو دئیے تھے۔ان حالات میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے محسوس کیا کہ حکمرانوں کی عدم توجہی اور لاپروائی کے باعث ملتِ اسلامیہ زوال کی زدپر ہے جس سے بچاؤ کے لئے کوئی دوسری قوت عالمِ اسلام میں سرگرم عمل نہیں ،آپ کا یہ احساس اس جذبے میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ عالمِ اسلام کے مرکز بغداد میں کھڑے ہو کر کم از کم ایک صدائے درد تو بلند کی جائے ۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور احیائے دین کے لئے اپنے مواعظ حسنہ کا آغاز کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’’رسول اللہ ﷺکے دین کی دیواریں پے درپے گررہی ہیں اور اس کی بنیادیں بکھری جاتی ہیں۔ اے باشندگانِ زمین آؤ اور جو گر گیا ہے، اسے مضبوط کردیں اور جو ڈھے گیاہے، اسے درست کردیں، یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی ، سب ہی کو مل کر کام کرنا چاہیے، اے سورج، اے چاند اور اے دن تم سب آؤ۔‘‘ (فتح ربانی)۔
آپ ؒنے پانچ عباسی خلفاء کا دور دیکھا اور ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا اوراُن کی غیر اسلامی روشِ حکمرانی اور اندازِ زندگی پر انہیں کھلے عام اور برسرِ منبر للکارتے ہوئے ایک مؤثر حزب اختلاف اور زبردست قوت ِ احتساب کا کردار ادا کیا، خلفاء وامراء سے سرزد ہونے والی لغزشوں پر اُن کی بیبا کانہ گرفت اور اصول دین سے انحراف کے رجحان پر سزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر عنان گیری کی ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکو اللہ نے دین اور فکر ِ دین کی دولت کے ساتھ مال و دولت ِ دنیاسے بھی خوب نوازا تھا، مگر دنیا اور اس کے مال ودولت کی حیثیت آپ کے نزدیک رائی برابر بھی نہیں تھی۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا:’’دنیا کی حقیقت میری ہتھیلی پر رائی کے دانے کی طرح ہے۔‘‘ آپ کے سلسلۂ امر بالعروف و نہی عن المنکر اور وعظ کی مجالس کے اثرات عظیم تحریکوں سے بڑھ کر ہوئے ہر مجلس میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں اور بے عملی سے تائب ہوجانے والوں کا تانتا بندھ جاتا ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ قلم کے ذریعہ بھی احیائے اسلام اور اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دیا اور اس سلسلے میں کئی کتابیں تحریر فرمائیں۔ آپ کی سب سے معروف کتاب غنیۃ الطالبین ہے ۔یہ آپ کے افکار پر مبنی مرکزی تصنیف ہے جس میں آپ نے ارکانِ شریعت، آدابِ مجلس ، امربالمعروف ، بدعت و ضلالت، نفس و روح و قلب کی تشریح جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ اس کتاب میں شریعت و طریقت کا اصل لب لباب بیان کرتے ہوئے مسلمانوں میں ایمان و عمل کے احیاء کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
طریقت و تصوف کے ضمن میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فنی اور اصطلاحی پیچیدگیوں سے ہٹ کر تصوف کو واضح اور سادہ اسلوب دیا ،ان کی تالیفات اس اعتبار سے صوفیانہ ادب میں بڑا اہم مقام رکھتی ہیں۔ آپ نے تصوف کی زبان کو بھی عام فہم بنایا اور تصوف کے ساتھ وابستگی کے دروازے بھی عام آدمی کے لئے کھول دیئے ۔ بحیثیت صوفی مبلّغ کے آپ نے چالیس سال تک وعظ و نصیحت کا کام کر کے عملاً ثابت کر دیا کہ تصوف و طریقت پر صرف اہلِ خلوت کی اجارہ داری درست نہیں۔
آپ طریقت کو شریعت کے ساتھ ہم آہنگ اور کھلی شاہراہ کی طرح کشادہ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے بیعت اور خانقاہی تربیت کے طریقوں کو بھی مرکز توجہ بنایا اور مروجہ طریقہ خانقاہی کو وسعت اور تازگی بھی دی اور نظم و ضبط بھی بخشا ۔ آپ کا جاری کردہ سلسلۂ قادریہ لاکھوں انسانوں کے مُردہ دلوں کو حیاتِ جاوداں عطا کرنے اور احیائے اسلام و اصلاح معاشرہ کی ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر گیا،جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور لاکھوں نفوس اس سے براہِ راست مستفید و مستفیض ہو رہے ہیں۔