
اے ساقی قربت کے جام پلا دیں
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
خالقِ احسن نے احسن نقشہ ہر عالم کے رخسار پہ مضمر کردیا ہے۔ اور ہر عالم کے عناصر اُسی نقشے کی لکیروں پر گامزن ہو کر اپنے خلیفے کی حکمِ تعمیل بجا لا رہیں ہیں۔ اپنے ہی عالم کی مثال لیتے ہے۔ ہمارے سیارے اور تارے اپنی اپنی مداروں میں سورج کی گردش کر رہے ہیں اور سوج نے انہیں ایک خاص کشش سے پکڑ رکھا ہے یعنی مساوات کا معملہ چل رہا ہے۔ جسکی وجہ سے فلکیات میں امن ابھی قاٸم مقام ہے اور جب یہی سورج کشش چھوڑ دے اور سیارے ستارے گردش کرنا بند کردے تو قیامت بپا ہوجاے گی ۔ ٹھیک اسی طرح انسانوں کی بستی میں جب میری نظر نے دوڑ لگاٸی ہے تو نظام ہی درہم برہم ہوچکا تھا ۔ مساوات کے دیوار کی ایک ایک اینٹ گر کر سارا دیوار بکھرا ہوا تھا۔ کیوں کہ اینٹ کا اینٹ سے رابطہ ختم ہوچکا تھا۔ ہمارٕے معاشرے میں یہ مثال آپکو شعبے میں ضرور نظر آے گی۔ گھروں میں ، بازاروں ، اداروں میں اور حتیٰ کہ مسجدوں میں اتفاق کا جنازہ نکل چکا ہے۔ تو ایک مضبوط قوم کی تعمیر کا خواب خواب رہ گیا ۔ ہمارے دلوں میں جب اپنوں کیلے گنجاٸش نہیں تو کسی اور کیلے سوچنا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تشویش کن صفت صرف عام لوگوں تک محدود نہیں بلکہ وہ لوگ اسکا اب سہی بھرم رکھتے ہیں جنہیں یہ مفلس قوم آس بھری آنکھوں سے دیکھا کرتی تھی ۔کہ یہ پتوں پر شبنم کے قطروں کو درخشان کریں گے، رسومات اور رواجاتوں کو نسیت و نابود کریں گیں۔ اور آپس میں حسد، نفرت ، بغض اور عداوت کی دیواروں کو منہدم کریں گیں ۔یہ توقع تھی قوم کو اس کے لوگوں سے ۔۔۔۔۔۔ مگر حیف صد حیف ۔ جب اندر کا نظام درہم برہم ہو تو بہشت کی ہواوں کا منتظر رہنا نادانی ہے۔ ہم نے چہرورں پر مصنوعی مسکراہٹوں کو مزین کر تو لیا ہیں۔ مگر آستیوں میں سانپ اور دلوں میں بد نیتی بھی ساتھ ساتھ پال رہے ہیں۔ نتاٸجوں سے ہم سارے دانا و بینا ہیں۔ ایک ہی آغوش میں پلے ہووں میں نفرت کیوں؟ اولاد والدین سے نافرمان کیوں؟ دوست دوست سے بیزار ہوا ۔ یہ ضخیم رشتوں میں دراڑ کیسے پیدا ہوٸی پہلے تو محبت کے جام پلاے جاتے تھے ۔ ایک دوسرے کے ہمدرد ،غمگسار ہوا کرتے تھے۔ جو رشتوں کا ، عزیزوں اور محبتوں کا بھر پور لہٰز رکھا کرتے تھے۔ بلا غرض ، بے مطلب تھے و لوگ ، جکی پرچھایوں تک میں اتفاق پھوٹ رہا تھا۔ اسی لیے کامیابی ، امن ، سکون چین اور راحت کی فضاوں میں پرواز گزار تھے۔
اسکے برعکس کتابِ حال کے اوراقوں پر اتفاق کے لمبے لمبے قصیدے، مضامین ، شعرو سخن رقمطراز ہیں ۔ لیکن معاشرے میں اسکا عمل منفی سے بھی نیچے چلا جا رہا ہے۔ تو جس سکون کے تعاقب میں یہ دورِ جدید کا بنی آدم سعی کر رہا ہے۔ وہ خاک ملے گا کیا۔ جب دل میں دوسرے کیلے حسد کا زہر اُبہل رہا ہو اور آپکا پڑوسن آپ کی وجہ سے کلفتیں اُٹھا رہا ہے۔ تو مسجد میں سر بہ سجود رہنا تک راس نہیں آسکتا ۔ آج تو المیہ یہ ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتی۔ جب خدا کے گھر میں ہمارے دل ایک ودسرے سے نا جھڑے تو تم بازاروں میں اتفاق کے اخبار کیوں کر چھپاتے ہو۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیشہ اتفاق پر زور دیا ہے۔ اور قرآنِ کریم میں بھی صاف واضح ہے۔ کہ آپس میں تفرق نا کرو ۔ سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑو۔ اسی میں فلاح چھپی ہے۔ لہٰزا ہم غور کرے کہ ہمیں اگر قوم کو تعمیر کرنا ہے تو حسد اور نفرت کو ہمیشہ دفن کرنا ہوگا۔ ورنہ یوں ہی بکھرتے رہیں گیں۔ ریت کے ذروں کی طرح ۔پھر جس جہت سے تیز ہوا آے گی اپنے ساتھ لے جاے گی۔ خدا کرے کہ ہم سب میں اتفاق جگ اُٹھے۔
