حجاج بن یوسف نے وسط شہر میں اپنے لئے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا ۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اس نے افتتاحی تقریب میں دعوت ِ عام دی تاکہ عوام اس عظیم الشان محل کو دیکھیں، اس کی سیر کریں اور حجاج کی تعریف کریں ۔
حضرت حسن بصریؒ نے سوچا کہ اس سنہری موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ وہ یہ نیت لے کر گھر سے نکلے کہ آج لوگوں کو نصیحت کرینگے، انہیں دنیاوی مال و متاع سے بے رغبتی اختیار کرنے کا درس دینگے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو انعامات ہیں انہیں حاصل کرنے کی ترغیب دینگے۔ جب آپ موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس عالیشان اور بلند و بالا محل کے چاروں طرف جمع ہیں اور عمارت کی خوبصورتی اور آرائش و زیبائش سے متاثر و مرعوب نظر آتے ہیں۔ آپؒ نے لوگوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا: ’’ہمیں یہ معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ مضبوط، خوبصورت اور عالیشان محلات تعمیر کئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیا اور اس کے محلات کو بھی تباہ و برباد کردیا۔ کاش حجاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں اور زمین والوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔‘‘ آپؒ پورے جوش و ولولہ کے ساتھ خطاب کررہے تھے۔ مجمع دم بخود تھا، یہاں تک کہ سامعین میں سے ایک شخص نے حجاج بن یوسف کے انتقامی جذبے سے خوف زدہ ہوکر حضرت حسن بصریؒ سے کہا: ’’جناب اب بس کیجئے، کیوں اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں دے رہے ہیں؟‘‘
حضرت حسن بصری نے اس نیک دل شخص سے کہا: ’’ میرے بھائی، اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے یہ پیمان لیا ہے کہ وہ ظالم کے منہ پر بغیر کسی خوف کے حق بات کا پرچار کرتے رہیں گے اور یہی فریضہ آج میں ادا کررہا ہوں۔‘‘
حجاج تک یہ باتیں پہنچ چکی تھیں۔ دوسرے روز گورنر ہاؤس میں آیا تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔ اس نے غضبناک انداز میں اہل مجلس سے کہا: لعنت ہے تمہارے وجود پر، بزدلو ! میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بصرے کا ایک غلام ابن غلام مجمع عام میں جو جی میں آتا ہے میرے خلاف کہہ جاتا ہے اور تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کی زبان کو روکے؟ اے گروہ بزدلاں، سنو، اللہ کی قسم اب میں اس کو ایسی عبرتناک سزا دوں گا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ پھر اس نے تلوار اور چمڑے کی چادر منگوائی۔ یہ دونوں چیزیں فوراً اس کی خدمت میں پیش کر دی گئیں۔ اس کے بعد اس نے جلاد کو بلایا اور ساتھ ہی پولیس کو حکم دیا کہ حسن بصری کو گرفتار کر کے لایا جائے۔
پولیس تھوڑی ہی دیر میں انہیں پکڑ کر لے آئی۔ وہ منظر بڑا ہی خوفناک تھا۔ ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ ہر شخص مغموم تھا اور دل کانپ رہے تھے۔ جب حضرت حسن بصریؒ نے تلوار، جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو زیرلب مسکرائے اور کچھ پڑھنا شروع کردیا۔
جب آپؒ، حجاج کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر مومن کا جاہ و جلال ، مسلمان کی شان و شوکت اور مبلغ کی آن بان کا عکس جمیل نمایاں تھا۔ جب حجاج بن یوسف نے ان کی طرف دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی، غصہ کافور ہو گیا اور بڑی دھیمی آواز میں کہا: ابوسعید حسن بصری! میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، آئیے تشریف رکھئے۔ جب آپ بیٹھنے لگے تو کہا: ذرا اور قریب ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس نے انہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔ لوگ یہ منظر حیرت، استعجاب اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔
جب حضرت حسن بصریؒ بڑے اطمینان سے تخت پر بیٹھ گئے تو حجاج نے ان سے دینی مسائل دریافت کرنے شروع کردیئے۔ حضرت حسن بصریؒ ہر سوال کا جواب بڑی دلجمعی، سحر بیانی اور عالمانہ شان کے ساتھ دیتے رہے۔ حجاج بن یوسف ان کے جوابات سے بہت متاثر ہوا اور پھر اس نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا:
’’ابوسعید، تم واقعی علماء کے سردار ہو ۔‘‘
پھر ا س نے ایک قیمتی عطر منگوایا اور ان کی داڑھی میں لگا کر الوداع کیا۔
بشکریہ نیو ایج اسلام اردو
