
ہر سال رمضان اور عید کی صحیح تاریخ پر جھگڑا ہوتا ہے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلم ملا، علماء اور فقہاء رمضان اور عید کی صحیح تاریخوں کے بارے میں مختلف نہیں ہوتے ہیں کیونکہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک میں رویت ہلال کمیٹیاں ہیں جن کا کام رمضان اور عید کی صحیح تاریخوں کا اعلان کرنا ہے۔ مسلمان بھی چاند نظر آنے کے بارے میں ان کمیٹیوں کے فیصلے کا بے صبری سے انتظار کر تے ہیں۔ باقی گیارہ مہینوں تک ان کمیٹیوں کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی ، اور وہ گمنام رہتی ہیں۔ یہ تمام کمیٹیاں خاموش نمائندہ ہیں کیونکہ ان میں تمام فرقوں اور مکاتب فکر کے علماء کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ہمیں ہمارے علماء کو متحد کرنے کے لیے چاند کو داد دینی چاہیے، جو اسلام کی مختلف تشریحات پر منقسم ہیں۔
اس سال بھی رویت ہلال کمیٹی بہت محتاط رہی اور دیر رات تک یہ اعلان نہیں کیا کہ رمضان کا چاند نظر آیا یا نہیں؟ چنانچہ جموں و کشمیر کے مفتی اعظم ناصر الاسلام نے کہا کہ رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا۔ ان کے کئی آڈیو کلپس وائرل ہو رہے تھے جن میں انہوں نے اعلان کیا کہ چاند نظر نہیں آیا۔ لیکن پھر پاکستان نے اعلان کیا کہ چاند نظر آ گیا ہے تو کشمیریوں نے مفتی اعظم کی رائے کی پرواہ کیے بغیر نے تراویح پڑھنا شروع کر دی اور روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا جس سے مفتی اور دیگر علمائے کرام کی جماعت کو کاگی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
مفتی اعظم کے کردار پر عوام کو خدشات تھے کہ وہ پاکستان کے فیصلے کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور ہندوستانی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ جموں و کشمیر کو اسی دن روزہ رکھنا چاہئے جس دن ہندوستانی مسلمان روزہ رکھیں نہ کہ جس دن پاکستانی مسلمان روزہ رکھیں ، کیونکہ وہ دشمن ہیں۔ ویسے بھی سیاست کے کھیل میں ہمیشہ مذہب کا ہی نقصان ہوتا ہے۔ چاند کی رویت کے بارے میں یہ ابہام صرف جنوبی ایشیائی مسلمانوں کا مسئلہ ہے، ورنہ سائنس، فلکیات اور جغرافیہ اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ چاند دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ترکی اور ملیشیا سمیت زیادہ تر مسلم ممالک میں قمری کیلنڈر پہلے سے ہی تیار کر دیے جاتے ہیں، اس لیے ان کے لیے اس میں کوئی الجھن نہیں ہے۔ چاند کی عینی شہادت صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ہی محدود تھی کیونکہ اس دور میں سائنس اور علم فلکیات نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ چاند کی صحیح حرکت کا اندازہ لگا سکیں۔ لیکن اب جب کہ سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے تو علماء کو یہ اعلان کرنا کیوں ضروری ہے کہ کب روزہ رکھا جائے یا عید کب منائی جائے۔ یہ صرف اور علمائے کرام کا ایک ہتھکنڈہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اہمیت برقرار رہے اور ہم جاہل عوام پر اپنی گرفت بنائے رکھیں۔ ناصر الاسلام یا کسی اور مفتی کے پاس ایسا کون سا خاص آلہ ہے کہ ان کو چاند دیکھنے کا اہل قرار دیا جائے؟ درحقیقت مجھے ان کی مذہبی صلاحت پر بھی شک ہے، کیونکہ اپنے والد کی طرح جو کہ ایک سرکاری مفتی تھے، ان کے اندر بھی یہ ذہنیت در آئی ہے کہ دینی امور میں فیصلے کرنا ہمارا موروثی حق ہے ۔
اگرچہ، اسلام یزید کی سنت یا شیعہ امامت کی پیروی کو ناپسند کرتا ہے جہاں قیادت پدرانہ نسب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ دیگر علمائے کرام جو خود ساختہ کمیٹی کے رکن ہیں وہ بھی غیر مستند ہیں کیونکہ انہوں نے اسلام کا مطالعہ فرقہ واریت کی عینک سے کیا ہے۔ ان کی مذہبی اور ادبی اسناد کو ایک طرف رکھ کر یہ سمجھنامشکل ہے کہ انہیں روزے اور عید کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا ماہر کس چیز نے بنایا ہے؟ ہمارے دور کے معروف عالم اور مجتہد جاوید احمد غامدی کا کہنا یہ ہے کہ ، جب انہیں پاکستان کی رویت ہلال کمیٹی میں عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اسے مسترد کر دیا کہ میں اس کام کے لیے مطلوبہ اہلیت کے مالک نہیں ہوں۔ لیکن کشمیر میں ہر دوسرا ملا رویت ہلال کمیٹی کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
پھر مفتی اعظم اپنے مؤقف سے یہ کہہ کر مکر گئے کہ جن لوگوں نے ہمارے اصرار پر پہلے دن کا روزہ نہیں رکھا وہ ایک دن کا روزہ قضاکریں، اس طرح انہوں نے عوامی موقف کی تائید کی، جبکہ اس بات پر بھی اڑے رہے کہ صحیح یہی تھا کہ چاند نظر نہیں آیا۔ اگر چاند نظر نہیں آیا تو قضا روزہ کیوں؟ ان بدلتے ہوئے اور متضاد موقف نے کمیٹی کی مذہبی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ اس کمیٹی میں تمام فرقوں اور مکاتب فکر کی نمائندگی ہے اور انہوں نے ایک نیا اجلاس بلایا جس میں قضا روزے کے بارے میں فیصلہ دیا گیا۔ یہ عوام میں اپنی گھٹتی ہوئے مقبولیت کو بحال کرنے کے لیے تھا اور تمام علمائے کرام نے کمیٹی کی عوام کی طرف سے شرمناک بت عزتی کے باوجود طاقت کا مظاہرہ کیا۔
دوسری جانب اہل حدیث فرقہ کے ایک عالم ڈاکٹر عبداللطیف الکندی نے اعلان کیا کہ مفتی اعظم نے چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کے بارے میں میرا نام لے کر جھوٹ بولا۔ جموں میں ایک بریلوی گروپ نے بھی اعلان کیا کہ ہم ناصر الاسلام کو مفتی نہیں مانتے کیونکہ عوامی معاملات میں انہیں کوئی دینی علم نہیں ہے۔ اس سب کے درمیان، جموں و کشمیر وقف بورڈ کے چیئرپرسن، ڈاکٹر درکشن اندرابی، جو کہ ایک سیاسی موقع پرست ہیں اور جن کے پاس سیاسی جماعت کے رکن ہونے کے علاوہ کوئی مذہبی اہلیت نہیں ہے، جنہوں نے جموں و کشمیر میں مزارات چلانے والے خاندانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھا ہے، اور جو خود ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت اپنے غیر کشمیری نسب پر فخر کرتی ہیں، انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وقف بورڈ کی اپنی رویت ہلال کمیٹی ہوگی جس سے ان کے اور ہلال کمیٹی کے علماء کے درمیان بیانات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
اصل مسئلہ بیانات اور جوابی بیانات میں کہیں گم ہو کر رہ گیا۔ کیا رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت ہے؟ جیسا کہ میں نے ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں یہ رائے پیش کی ہے کہ سائنس اور فلکیات نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ قمری کیلنڈر اور مہینوں کی پیشین گوئی کر سکتی ہے جیسا کہ زیادہ تر مسلم ممالک میں ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ علمائے کرام اور ان ہلال کمیٹیوں کے ارکان چاند دیکھنے کے اہل نہیں ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کی عظیم تر بھلائی اور اتحاد کے لیے ان کمیٹیوں کو ختم کر دینا چاہیے۔ جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان میں چاند کے اعلان کا فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، اور حکومت کسی ادارے کو یہ کام سونپ دے تاکہ ابہام، جھگڑے، مسائل اور وقت اور وسائل کے ضیاع سے بچا جا سکے۔ نیز علمائے کرام کو کسی تعمیری کام میں مصروف رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی مہارت کا کچھ مثبت استعمال ہو۔
نیوز ایچ اسلام
