تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ماہ رمضان کو گزرے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ۔ ماہ شوال کے ابتدائی دن گزارے جارہے ہیں ۔ شوال کے چھے دنوں کے روزوں کا چرچا ہے ۔ کئی لوگ ہیں جو شوال کے روزے پابندی سے رکھتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے ماہ رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے وہ تو جیسے پورا سال روزوں سے رہا ۔ اس کو ایک سال کی روزہ داری کا ثواب ملے گا ۔ تمام وعظ و نصیحت اپنی جگہ ۔ خیر و برکت اپنی جگہ ۔ روزوں کی اہمیت اپنی جگہ ۔ روزے صرف روحانی فضیلت کا سبب ہی نہیں ۔ بلکہ بہت سے حکیم و دانا لوگ روزوں کی اہمیت جتلاتے ہوئے جسم اور صحت پر اس کے بہتر اثرات کے قائل ہیں ۔ فزالوجی کے ماہروں کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لئے روزے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور سال میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ یہ سب باتیں بڑی اہم اور قابل تقلید ہیں ۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ روزوں کا ہمارے سماج پر مثبت اثرات کا نظر آنا محال ہے ۔ عید کے فوراََ بعد یوں لگتا ہے کہ روزوں کا بس شمار کیا گیا ۔ اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آتے ۔ عید کے دھوم دھام اور پٹاخوں کے شور میں روزوں کے سارے اثرات تحلیل ہوگئے ہیں ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اتنی مشکل اور کٹھن عبادت سے گزرنے کے باوجود ہمارے سماج میں اس کے روحانی اثرات کا آج کہیں نام ونشان نہیں ہے ۔ ایک بھی ایسا انسان نظر نہیں آتا جس کودیکھ کر لگے کہ روزوں نے اس کی کایا ہی پلٹ کے رکھ دی ہے ۔ ہمارا سماج آج پھر اسی ڈگر پر آگیا ہے جہاں یہ روزہ داری سے پہلے تھا ۔ اس بات پر کوئی تشویش نہیں پائی جاتی کہ روزوں نے ہمارے مزاج میں کوئی تبدیلی لائی نہ سماجی اوصاف میں بدلائو لایا ۔
روزہ داری کے اختتام کے ساتھ ہی روزوں کا اثر زائل ہونے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ماہ صیام کا حق ادا نہیں کرسکے ۔ تیس روزے مکمل کرنے کے باوجود ہم روزوں کا اصل مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں ۔ بہت سے لوگوں کی آنکھیں اس وجہ سے نم ہیں کہ ماہ صیام رخصت ہوگیا ۔ ان کے لئے یہ مہینہ واقعی خیر و برکت کا مہینہ تھا ۔ انہوں نے صحیح جذبے کے ساتھ روزے رکھے ۔ لیکن اکثر لوگوں کے لئے یہ مہینہ بار گراں تھا ۔ عید آتے ہی انہوں نے سب کچھ بھلادیا ۔ سحری یاد رہی نہ افطار کی یاد باقی رہی ۔ مسجدوں کی چہل پہل باقی رہی نہ روزوں کا اہتمام باقی رہا ۔ عید کا چاند نکلتے ہی ان کے لئے دنیا کی مستیاں اور عیاشیاں لوٹ کر آگئیں ۔ آج ایسا لگتا ہے کہ ماہ صیام کو رخصت ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں ۔ ماہ صیام محض سحری و افطار کا نام نہیں ۔ بلکہ یہ اپنی حیثیت میں ایک عظیم الشان پس منظر رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہینے کے اختتام پر کھلے میدان میں جمع ہوکر سجدہ شکر بجالانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ایسا مہینہ گزرگیا جو بڑا ہی بابرکت مہینہ تھا ۔ جن لوگوں نے اس مہینے کا اہتمام پورے ذوق و شوق اور ایمان و احتساب کے ساتھ کیا ان کے لئے یہ مہینہ بڑا ہی عظیم مہینہ رہا ہے ۔ جن لوگوں نے اس مہینے کی ٹریننگ اور تربیت سے پورے سال کے لئے میقات ترتیب دیا ہے وہ واقعی خوش قسمت لوگ ہیں ۔ لیکن بیشتر آبادی کے لئے یہ مہینہ گزرتے ہی موج مستیاں لوٹ کر آگئیں ۔ ماہ صیام رخصت ہونے کے ایک ہفتے کے بعد ہی ہمارے معاشرے کا رنگ ڈھنگ بدل گیا ۔ ماہ صیام کا کوئی اثر ہے نہ روزوں کا کوئی پہلو باقی ہے ۔ مسجدوں میں جو رونق تھی ماند پڑگئی ۔ بازاروں اک جو حسن تھا سب لٹ چکا ہے ۔ محلوں میں جو تابانیاں تھیں کہیں نظر نہیں آتیں ۔ تلاوت کلام پاک کی جو چہچاہٹ سنی جاتی تھی باقی نہیں رہی ۔ سب زبانیں خاموش ہوچکی ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ماہ صیام سے کوئی سبق حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ جب ہم روزوں کے اثرات بحال رکھنے میں ناکام رہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس دوران اللہ میاں کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے ہونگے ۔ یہ ایسا سوال ہے جس پر غور کرنا لازمی ہے ۔ ماہ صیام کے دوران ہم خوڈ کو بڑا خوش قسمت سمجھتے تھے ۔ اس پر خوش تھے کہ اللہ نے ہماری زندگی میں ایک اور ماہ صیام کا اضافہ کیا ۔ اس مہینے کے دوران ہم وقت سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے تھے ۔ وہاں جاکر نوافل کا اہتمام کرتے تھے ۔ قرآن مجید کے ایک دو پاروں کی روزانہ تلاوت کرتے تھے ۔ مسجد کی سیڑھیوں پر بھکاریوں کی قطار لگی رہتی تھی ۔ ہر کسی کی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ صاف وشفاف رہنے کا اہتمام کرتے تھے ۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی کی فکر کرتے تھے ۔ ماہ صیام کیا گزر گیا کہ انسانیت ہی ہم سے رخصت ہوگئی ۔ ہم ایک بار پھر وحشت ناک حیوان بن گئے ۔ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ دوسروں سے حسد ہماری عادت ہے ۔ پرانی سب برائیاں معاشرے میں سر ابھار رہی ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار ایک بار پھر گرم ہے ۔ کام چوری کی عادت پھر ہمارے اندر لوٹ آئی ہے ۔ ارد گرد گندگی کے ڈھیر پھر نظر آرہے ہیں ۔ شور وغوغا کا بازار پھر گرم ہے ۔ ادب اور ڈسپلن کا نام و نشان باقی نہیں ہے ۔ کافروں وک گالیاں تو دیتے ہیں ۔ لیکن ان کی خوبصورت معاشرتی زندگی سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ۔ ماہ صیام سکھاتا ہے کہ معاشرہ بڑا نظم وضبط کا پابند ہونا چاہئے ۔ لیکن ہمارا معاشرہ انتہائی روگردان اور بے ربط ہے ۔ یہاں شرافت کہیں نظر نہیں آتی ۔ صداقت کا کوئی شائبہ نہیں ۔ دیانت کا کوئی اثر دوردور تک نظر نہیں آتا ۔ پورا معاشرہ کھوکھلا ہوکر رہ گیا ۔ ماہ صیام ہمیں کچھ سکھانے آیا تھا نہ کچھ سکھا کر گیا ۔ ہم اس سے کوئی درس لینے میں پوری طرح ناکام رہے ۔
