
مذہب کے نام پر تشدد خوفناک حد تک بڑھنے کے بعد، بین المذاہب مکالمہ ایک علاج کے طور پر اور اب ایک صنعت کی شکل میں فروغ پا رہا ہے۔ بہت سے مکالمے کے قائدین اور داعیان اسے تمام برائیوں کے علاج کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور مختلف مذاہب کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ مختلف مذاہب کے بارے میں غلط فہمیاں، غلط تصورات اور دقیانوسی تصورات ایسی چیزیں ہیں جنہیں کم کیا جا سکتا ہے۔
ہر مذہب کے ماننے والوں کا دوسرے کے بارے میں ایک تصور اور تعصب ہوتا ہے۔ یہ یقینی طور پر بالکل عام ہے کیونکہ صدیوں کے حالات نے ان تعصبات کو قائم کیا ہے۔ یہ امراض ایک ہی مذہب کے فرقوں میں بھی رائج ہیں۔ ان تعصبات پر قابو پانے کے لیے بھرپور کوششوں کی ضرورت ہے اور پھر بھی ان کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ تعصبات پریشان کن نہیں ہیں کیونکہ یہ روزمرہ کے معاملات، معمولات اور مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان تعامل میں شاذ و نادر ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو تقویت دی جاتی ہے، اس کا پرچار کیا جاتا ہے اور اسے مضبوط کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں اختلاف و افتراق اور بے مثال تشدد جنم لے گا۔
بین المذاہب مکالمے کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرکے ان تعصبات، دقیانوسی تصورات اور تعصبات پر قابو پانا ہے۔ یہ بین المذاہب مکالمے کا رہنما اصول رہا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے معاشروں کے درمیان اتحاد کی فضاء قائم ہوگی، اور تعصبات اور اختلاف و افتراق کو کم ہو گا۔ تاہم ان مکالموں کی افادیت محدود ہے کیونکہ یہ معاشرے کے ایک اشرافیہ طبقے کی طرف سے کئے جاتے ہیں، خواہ وہ اسکالر ہوں، علما و فقہا ہوں، ماہرین تعلیم ہوں، صحافی ہوں، کارکن ہوں اور سول سوسائٹی کے ارکان ہوں۔ یہ سب معاشرے کو درپیش مختلف پہلوؤں اور مسائل پر رائے عامہ قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ مذہبی تشدد اور امتیازی سلوک بھی ایسا ہی ایک پہلو ہے۔ اس قسم کے مکالمے کے حامیوں کا خیال ہے کہ مکالمہ ایک اشرافیہ کا منصوبہ ہے اور اسے عوامی سطح پر منعقد نہیں کیا جا سکتا۔ اس دعوے پر پانی پھر جاتا ہے کیونکہ ان مکالموں کی مجلسوں میں زیادہ تر مذہبی مسائل پر بات کی جاتی ہے اور البیرونی اور دارا شکوہ جیسے علماء کی کچھ خدمات پر ھی بات کی جاتی ہے جنہوں نے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ دوسری کانفرنسوں میں جہاں ابراہیمی سامی مذاہب پر بات کی جاتی ہے، ان مذاہب کے درمیان مماثلت، ان کی مشترکہ بنیادوں اور خدا کے بارے میں ان کا تصور، روایات اور طرز عمل میں ان کے مشترکات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی ان مکالموں میں شریک ہوتا ہے تو اسے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذاہب مسائل کا شکار نہیں ہیں، اور یہی حال ماہرین تعلیم، علمائے دین اور فقہائے کرام کا ہے ہیں جو کانفرنس ہال میں بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ لیکن جب یہ کانفرنسیں ختم ہو جاتی ہیں تو ان مذاہب کے ماننے والوں کی ایک دوسرے کے خلاف تصادم کی تلخ حقیقتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس موقع پر ان مکالماتی کانفرنسوں کے زیادہ تر شرکا خاموشی اختیار کرتے ہیں کیونکہ تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے وہ اپنے ہی دینی بھائیوں کے دشمن بن جائیں گے۔ صرف چند بہادر لوگوں کے اندر ہی ایسا کرنے کی جرات ہوتی ہے۔
مکالمہ حقیقی زندگی میں عمل درآمد، مشق اور اطلاق کا مطالبہ کرتا ہے ورنہ یہ صرف ایک کوشش بن کر رہ جاتی ہے کہ جہاں صرف اتنے بلند و بالا تصورات پیش کیے جاتے ہیں کہ جن کا حقیقت سے آراستہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ان مکالماتی کانفرنسوں کا انعقاد، اہتمام اور ان پر عمل درآمد مکالمہ کی معاشیات کا مظہر ہے۔ ایک صنعت کے طور پر مکالمہ بہت سے اداروں اور لوگوں کے لیے ایک اقتصادی منصوبہ ہے۔ سفر، کھانے کے اخراجات اور پیش کش کے لیے اچھے معاوضے ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ مشقیں ڈائیلاگ کرنے والوں کے لیے ایک اہم مہم بن جاتی ہیں تاکہ وہ مزید رابطے کر سکیں اور پوری دنیا میں مزید کانفرنسوں میں مدعو ہو سکیں۔
ان مکالموں میں شرکت کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ جوش و خروش میں تمام مذاہب کو ایک بیان کرتے ہیں، لیکن دل سے وہ اس دعوے پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام مذاہب ایک نہیں ہیں۔ اگر مذاہب کی یکسانیت ایک حقیقت ہوتی تو حقیقت پر دعویٰ اور اجارہ داری کی بات ہی نہیں ہوتی، یقیناً ایسا نہیں ہے۔ ہر ایک مومن، ان کے مذہبی پیشوا، علماء، ماہرین اور یہاں تک کہ مکالمہ کے یہ اشرافیہ، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب ہی نجات کی طرف لے جانے والا واحد راستہ ہے، جب کہ دوسرے صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے گروہ ہیں۔ لیکن وہ ‘دوسرے’ کو زیر نہیں کر سکتے، فتح نہیں کر سکتے، فنا نہیں کر سکتے، اس لیے انھیں برداشت کرنا چاہیے اور ساتھ رہنا چاہیے۔
اس ناگزیر بقائے باہمی کی وجہ سے ہی بہت سے لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ سب کچھ بہتر ہے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہونے والے ہر قسم کے تشدد کے ذمہ دار صرف سیاست دان اور صرف مذہبی بالادستی کے حامیان ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقل تعامل اور بقائے باہمی برادریوں اور مختلف مذاہب کے درمیان رکاوٹوں کو توڑ دیتے ہیں۔ لیکن تجربہ کچھ اور ہی بتاتا ہے۔
وادی کشمیر کے ہندو جنہیں پنڈت کہا جاتا ہے اور مسلمان صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے، لیکن چند واقعات ہی ایک بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور رشی ازم کے نام سے مشہور ہم آہنگی کی ثقافت کے ٹوٹنے کے لیے کافی تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں چھوٹے چھوٹے واقعات فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے لیے کافی ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ا رہے ہیں۔ تصادم صرف بین المذاہب گروہوں کے درمیان ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہ اور فرقے ایک دوسرے سے تصادم کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی تشدد مسلم معاشروں کی ایک زندہ حقیقت ہے۔ لہٰذا اس تعامل اور بقائے باہمی کے نظریہ کو اگرچہ ایک سیاسی نظریہ دان اشتوش ورشنی نے فروغ دیا ہے، اس کی خامیاں کشمیر کے تناظر میں عیاں ہیں۔
صدیوں سے بطور شہری بقائے باہمی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ان پرتشدد جھڑپوں کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی مختلف وضاحتیں کی جا سکتے ہیں، جس میں ایک یہ حقیقت بھی ہو سکتی ہے کہ یہ معاشرے بقائے باہمی کا ٹو مظاہرہ کر رہے تھے لیکن ان میں اتحاد نہیں تھا۔ ان کے درمیان کہیں گہرائی میں ایسی خامیاں تھیں جو ظاہر نہیں ہو سکیں۔ لہذا سطحی طور پر سب کچھ ٹھیک معلوم ہوتا ہے، جبکہ حقیقت میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت جنم لیتی رہتی ہے اور مضبوط ہوتی رہتی ہے اور ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے۔ اسے پرتشدد بنانے کے لیے بس تھوڑی سی چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقائے باہمی ایک حقیقت ہو سکتی ہے اسی طرح فرقہ وارانہ فسادات بھی ایک سچائی ہیں۔
کسی بھی بامعنی مکالمے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس بقائے باہمی کی خامیاں دور ہو جائیں۔ مکالمے کے اداروں کی صورت میں درسگاہیں اس کا ایک نقطہ آغاز ہو سکتی ہیں جہاں مخالف مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہوئے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بقائے باہمی کی تعلیم دی جائے۔ ان درسگاہوں میں بچوں کو سکھایا جا سکتا ہے کہ ہم دوسرے کے بارے میں جو تعصبات رکھتے ہیں ان پر کیسے قابو پانا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پرتشدد ہجوم کے جنون کا حصہ بننے سے کیسے خود کو بچانا ہے۔
نیز مکالمے میں ایسا بھی نہ ہو کہ یہ ایک ایسے مباحثے کی شکل اختیار کر جائے جس میں مختلف شرکاء کے خلاف باتیں کی جانے لگیں۔ کئی بار شرکاء مکالمے کو بحث میں بدل کر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو نیچا دکھانے میں لگ جاتے ہیں، لہٰذا ایسا کرنے سے اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی خالص نیت ایسے مکالمے سے پہلے، دوران اور بعد میں ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ مکالمہ تجریدی تصوراتی فریم ورک میں الجھنے کے بجائے عمل پر مبنی ہے۔