تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
دنیا کے مختلف حصوں سے نکل کر حجاج کرام مکہ معظمہ میں جمع ہورہے ہیں ۔ حج کے ایام قریب ہیں اس وجہ سے تمام عازمین حج حرم کعبہ کے پاس جمع ہورہے ہیں ۔ ان عازمین میں دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ ہیں ۔ ہر رنگ کے مسلمان یک رنگ ہوکر یہاں جمع ہورہے ہیں ۔ ہر خطے کے شہری اپنی شہریت کو فراموش کرکے اس اجتماع میں شامل ہورہے ہیں ۔ کئی زبانوں کے لوگ ایک ہی زبان اختیار کرتے ہوئے اس طرف دوڑ رہے ہیں ۔ مشرق ، مغرب ، جنوب اور شمال کے اطراف سے لوگ آکر ایک ہی مرکز کے پاس کھڑا ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مختلف قومیتوں اور شناختوں کے مرد وزن یہاں ایک ہی نام پر جمع ہورہے ہیں ۔ جموں کشمیر سے بھی کئی ہزار لوگ یہاں پہنچ گئے ہیں ۔ ان میں وہ سرکاری ملازم بڑی تعداد میں شامل ہیں جو اپنی پوری سروس کے دوران لوگوں کا خون چوستے رہے اب ملازمت سے سبکدوش ہوکر حاجیوں میں شامل ہوگئے ہیں ۔ وہ لوگ بھی حجاج کہلائے جائیں گے جو اپنا اور اپنے بال بچوں کی پرورش خیرات ، صدقات اور زکوات پر کرتے رہے اب خود کفیل ہوکر حج کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ ان قافلوں میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جن کی عمر عزیز آوارہ گردی میں گزری اب پیرانہ سالی میں حج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ان حجاج میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے دن اللہ کی بغاوت اور راتیں اللہ کی دشمنی میں گزری اب کچھ لاکھ خرچ کرکے سفر مقدسہ پر روانہ ہوئے ہیں ۔ اللہ کی دست قدرت میں ہے کہ وہ اپنے ایسے گناہ گار بندوں کو بخش دے ۔ لیکن یہ قانون قدرت کے خلاف ہے اور اللہ اپنے طے شدہ قوانین کو بدلتا نہیں ۔ وہ لوگ جو اسلام کی آڑ میں ایسا تجارت کرتے رہے جو اسلام کے سراسر مخالف تھا ۔ وہ لوگ جو سود کی طرح صدقات و زکوات ہڑپ کرنے میں آگے آگے تھے ۔ وہ لوگ جو دوسروں کو غریبی کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے رہے اور خود اس وعظ و نصیحت کی آڑ میں شاہانہ زندگی گزارتے رہے ۔ وہ لوگ جو ساری عمر مسلمانوں کو لوٹتے رہے اور اپنی نسلوں کو آباد کرتے ہوئے آج حج کے لئے روانہ ہوئے ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے سب لوگ کعبہ کے پاس جمع ہونے کے بعد اللہ کے مقرب بندے بن گئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واپس آکر یہ لوگ حاجی کہلائیں گے ۔ لیکن ضروری نہیں کہ اللہ کے یہاں ان کا شمار مقرب اور معزز بندوں میں ہوگا ۔ ہاں اللہ غفور ورحیم ہے ۔ لیکن ظالم نہیں ہے کہ دوسروں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو اپنی پناہ میں لے کر انہیں معزز اور مشرف ناموں سے مزین کرے گا ۔ حجاج کرام کا جو ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر منیٰ اور عرفات میں کھڑا ہورہاہے وہ جم غفیر یا اجتماع عظیم اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
جو کوئی بھی مسلمان حج کے لئے روانہ ہوتا ہے بہ ظاہر نیک اور متقی ہوتا ہے ۔ سچ بھی یہی ہے کہ اسلام کی اس آخری فرض کو ادا کرنے والے صحیح معنوں میں اللہ کے بندے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے نمازوں کا مقصد پاکر ، روزوں کی فضیلت حاصل کرکے اور زکوات کی ادائیگی کے بعد صحیح اسلامی رنگ حاصل کیا ہوتا ہے ۔ اللہ نے پہلے کلمہ طیبہ کی ترغیب دی تاکہ عقیدہ درست ہوجائے ۔ پھر نمازیں فرض کیں تک صف بندی ہوجائے ۔ زکوات ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ مال کی محبت کم یا ختم ہوجائے ۔ ایسے تمام مقاصد حاصل کرکے آئیے اب حج ادا کریں تاکہ دوسری عبادات میں جو کمی رہ گئی ہے وہ پوری ہوجائے اور حج کرنے کے بعد ایک مسلمان خالص اللہ کا بندہ بن جائے ۔ اسی کی خدائی تسلیم کرے اور اسی کی بڑائی بیان کرے ۔ اس کے بعد کوئی بھی بڑا نہیں سوائے اللہ کے ۔ کیا ایسا ہی ہوتا ہے ۔ شاید نہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بہت سے حجاج کرام واپسی پر نور بصیرت کے حامل بن جاتے ہیں ۔ ان کی زندگی اسلام کے رنگ م یں رنگ جاتی ہے ۔ لیکن اکثریت وہی ہے جو پھر بھی کورے کی کوری رہ جاتی ہے ۔ نمازیں پڑھ کر بھی انہیں بدیوںسے نجات نہیں مل جاتی ہے ۔ اچھائیوں کی طرف رغبت نہیں بڑھ جاتی ہے ۔ روزوں سے کوئی تقویٰ حاصل نہیں ہوتا ۔ زکوات ان کے مال کو نہ خود انہیں صاف وپاکیزہ بنادیتا ہے ۔ حج پر آواجاوی کا سفر بس ایک کوفت بن کر رہ جاتی ہے ۔ حاصل یہاں بھی کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ حاجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ ان کی تعداد بڑھ گئی ۔ ان کی لائن لگ گئی ۔ بس ایک جم غفیر جمع ہوگیا ۔ باقی سب کچھ ویسے کا ویسا ہے ۔ اجتماع عظیم میں خیر کی کوئی بات ہوئی نہ بدیوں کے تدارک کا کوئی ذکر کیا گیا ۔حج سے مسلمانوں کی زنفرادی زندگی بدل گئی نہ اجتماعیت میں کوئی سدھار آگیا ۔ بربادی پر روک لگ گئی نہ تباہیوں کے سامنے روکے گئے ۔ اس سے یہی اندازہ ہورہاہے کہ لاکھوں کی تعداد لوگوں کا جمع ہونا ایک جم غفیر ہے ۔ خیر کو کوئی اجتماع نہیں ۔ مسلمانوں کے ذاتی مسائل حل ہوئے نہ اجتماعی تقدیر بدل گئی ۔ کوئی بدلائو آیا نہ کوئی تبدیلی دیکھی گئی ۔ ہاں تجوریاں خالی ہوئیں اور کچھ لوگوں کے خزانے بھر گئے ۔ دنیا کے کونے کونے سے حرام کمائی جمع ہوکر پاک سرزمین کے شہریوں کے کھاتوں میں جمع ہوگئی ۔ مال وزر کے وہ ڈھیر جو لوگوں کے گلے کاٹ کر تیار کئے گئے تھے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئے جنہیں عیش و عشرت کے سامان میں کچھ کمی رہ گئی تھی اب وہ پوری ہوجائے گی ۔ یہی اس سال کے حج کی دین ہے ۔
