تحریر :سبزار رشید بانڈے
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان ایسا رشتہ بنتا ہے جو کہ سب کی توجہ خوب حاصل کر لیتا ہے، کچھ کو تو جذباتی بھی کر دیتا ہے۔
ایک والد اپنی اولاد کے لیے اپنا سکھ دکھ، خواہش ہر چیز بھول جاتا ہے ایسے میں اسے صرف ایک ہی چیز یاد رہتی ہے اور وہ ہے اولاد کی خوشی۔
والدین اللہ کی طرف سے عطاء کردہ ایک ایسی انمول نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ باپ کی شفقت و سرپرستی اور ماں کا سایہء آغوش انسان کو زندگی کی معراج تک لے جاتا ہے۔
انسان کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتا ہو، اولاد کے لیے اس کے دل میں محبت کا سمندر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ جانور کو بھی اپنی اولاد سے بے انتہا محبت ہوتی ہے۔ اس کا خیال رکھنا، اس کی حفاظت کرنا، اس کے لاڈ اٹھانا، اس کی خوراک کا انتظام کرنا، سردی گرمی سے بچانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ انسان تو اپنی اولاد سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ان کے جذبات کا خیال رکھنا اور اسکے سب اخراجات پورا کرنا ایک باپ انجام دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو شادی بیاہ، روزگار اور پھر ان کی اگلی نسلوں کی زمہ داری تک بچوں کے ساتھ اپنی ہمت اور استطاعت کے ساتھ کھڑے رہنا بھی باپ کی زمداری سمجھی جاتی ہے۔ اولادکی نافرمانی اور بدتمیزی کے باوجود ان کے لئے دعائے خیر کرنا والدین کی محبت کا اعجاز ہے۔
موجودہ دور میں والدین کی یہ محبت انتہا پسندی کی طرف چلی گئی ہے۔ بہت سارے فرائض اور زمہ داری میں عدم توازن کے باعث والدین اپنی اولاد کے لیے provider کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن کا کام اولاد کو مہیا کرنا ہے وہ بھی ان کی عمومی ضروریات، اخلاقی اور روحانی تربیت دینے کا وقت والدین کے پاس اس لیے نہیں ہے کہ موجودہ ضروریات کی لامحدود فہرست نے انہیں اس قابل چھوڑا ہی نہیں۔ جہاں والدین اس تربیت کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو اولاد سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں کیونکہ مادیت کی چکا چوند نے ان کی آنکھوں اور دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔
کپڑے، جوتے، بیگ سے لے کر چھوٹی بڑی ہر چیز برانڈڈ، نئے سے نئے ماڈل کا موبائل، بائیک سے گاڑی، ہر چیز اعلیٰ سے اعلیٰ وغیرہ وغیرہ نے زندگی کو خواہشات کا غلام بنا دیا ہے، ان ساری زمہ داریوں میں اولاد کا کیا رول ہے؟ زندگی میں والدین جب تک supplier اور provider کا رول ادا کر سکتے ہیں انہیں جذباتی طور پر بلیک میل کیا ۔جاتا ہے۔ جب خود زمہ داریاں اٹھانے کا وقت آئے تو والدین کو نظر انداز کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اولڈ ہاؤسز آباد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں اولڈ ہاؤس میں نہیں بھیجا جاتا وہاں والدین کو گھر کے کونے میں محدود کر دیا جاتا ہے۔
ایسا ہر گھر میں نہیں ہوتا۔ یقیناً ایسے گھر اور خاندان موجود ہیں جہاں بزرگوں کو عزت دی جاتی ہے اور ان کا مان رکھا جاتا ہے اور انہیں اپنے لیے رحمت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا دین والدین کی بہت سی قربانیوں کے بدلے اولاد سے صرف فرمانبرداری اور اطاعت کا متقاضی ہے۔ عمر کا ایک دور آتا ہے جب والدین کی مادی اور مالی ضروریات محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ انہیں صرف محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اولاد سے اطاعت کا تقاضہ نو عمری سے ہی ہوتا ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں سورۂ مریم میں ارشاد کچھ یوں ہوا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن سے دانائی عطا کی گئی۔ وہ رحمدل، پاکیزہ اور پرہیز گار تھے، والدین سے اچھا سلوک کرتے تھے، سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔ یہ ہیں وہ خصوصیات جو ہمارا دین ایک آئیڈیل نوجوان کے بارے میں دیتا ہے۔
ایک مسلم معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ بچے ماں اور بہن بھائیوں کو اس بات پر قتل کر دیں کہ وہ موبائل گیم کھیلنے سے منع کرتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرہ جہاں بچوں کی تربیت دینی شعار کے مطابق کی جائے وہاں بچیاں اپنی زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں پر والدین کو اعتماد میں لیے بغیر ان کی محبتوں کو ان کے احسانوں کو پیروں کے نیچے کچل کر گھروں سے نہیں نکل جاتیں۔ یہ سوچے بغیر کہ دنیا میں کوئی اور ایسا نہیں ہے جو انہیں اپنے پروں میں چھپا کر دنیا کے طوفانوں سے بچا لے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس معاشرے میں ہو رہا ہے۔ والدین اپنی زمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں لیکن اولاد نافرمان ہے اپنی من مانی کرتا ہے بے راہ روی کا شکارہے اوراس لعنت کا شکار لڑکے اور لڑکیا ںدونوں ہیں جو ماں پاب کے مقام و مرتبے سے یکسرغا فل ہیں،فرمانبرداری کے جذبہ سے عاری ہیں اور عزت و احترام کا تو کوئی تصورہی نہیں ہے یہ حالات عالمی سطح پر عام ہیں اورسبھی نئی نسل نافرمانی، سرکشی اورباغیانہ رویہ سے بے حال ہیں۔
اولاد کی گمراہی کا بنیادی سبب والدین کی غفلت اور اولاد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تہذیب کی ذمہ داریوں میں کوتا ہی ہے اولاد کے نیک اور بد ہونے میں والدین کا زبردست رول ہوتا ہے ۔والدین جس طرح اولاد کی پرورش و تربیت کریں گے اولاد اتنی ہی لائق اور فرمانبردار ہوگی اس لئے کہ بچے نقال ہو تے ہیں اور والدین ہی ان کے سب سے قریب ہوتے ہیں لہٰذا جو بھی کام وہ والدین کو کرتے دیکھتے ہیں اسی کو قبول کرلیتے ہیں دوسرے معنوں میں والدین اولاد کے لئے آئینہ ہیں ۔وہ آئینہ میں جو عکس پاتے ہیں وہی اپنا لیتے ہیں اگر والدین با اخلاق اچھی عادتوں اور خوبیوں کے حامل ہیں تو اولاد بھی ان خصوصیات کو اپنے اندر سمولیتے ہیں اور اگر والدین کی خصوصیات اس کے برعکس ہوں تو اولاد میں بھی وہی خصوصیات منعکس ہوتی ہیں
لہزا اپنے خاندانی روابط کو مضبوط بنائیں۔ رشتوں کی قدر کریں اور ان کی اہمیت کو سمجھیں۔ والدین کی ساری محنت اولاد کو معاشرے کا با شعور اور مہذب فرد بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ والدین کی ہر خوشی اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ اولاد اس بات کو سمجھے اپنی اور اپنے والدین کی عزت، عزتِ نفس اور وقار کا احساس کرے۔ خواہشات کو بے لگام چھوڑنے کے بجائے اس کو لگام دینے کی کوشش کرے۔ خواہشات بہت حاوی ہو جائیں، مشورہ کریں، اپنے بڑوں سے اپنے آس پاس کے لوگوں سے۔ سب سے پہلے والدین اور اساتذہ سے۔
بھاییوں اور بہنوں سے التجا ہے کہ کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے اس محبت کا ضرور سوچیں جو اللہ نے اس کائنات میں آپ کے اور آپ کے والدین کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ڈالی ہے۔ آپ کی پیدائش پہ جو خوشیاں انہوں نے منائی تھیں ان کو غم میں نہ بدلیں۔ یہ چھوٹی سی کوشش میں نے اپنے بانجے محمد عطیق الظمان ملک کے کل کے امتحانی نتاییج کے بعد تحریر کی کیونکہ محمد عطیقالظمان نے پورے خاندان کا نام روشن کیا ۔انھونے جموں کشمیر میں دسویں جماعت مں 492 مارکس حاصل کر کے نہ صرف اپنے ماں باپ کا نام روشن کیا بلکہ ١۴ویں پوزشن حاصل کر کے پورے خاندان کا نم روشن کیا ۔اللہ سے میں دعا گو ہوں کہ اللہ میری بیٹی ثنا سبزار کے ساتھ ساتھ سبھی بچوں کو اولاد صالح بناییں ۔اور اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں ہدایت دے۔ آمین