تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ایک اور سال اختتام کو پہنچا اور نیا ہجری سال 1445 شروع ہورہاہے ۔ ہجری کلینڈر کا اب بہت کم استعمال ہوتا ہے ۔ مسلمان خود بھی شاذ و نادر ہی اس کا استعمال کرتے ہیں ۔ رمضان کے مہینے کے لئے اسلامی تاریخوں کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ تاہم ہجری سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے ۔ عیسوی کلینڈر نے پوری دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے ۔ وجہ صاف ہے کہ ایسی قوموں نے طاقت حاصل کرکے دنیا کو اپنے تسلط میں لایا ہے جو ہجری کلینڈر کے بجائے شمسی نظام اوقات کے حامل ہیں ۔ ان اقوام نے اقتدار پر ہی غلبہ حاصل نہیں کیا ہے بلکہ پوری انسانی زندگی کو اپنے تابع بنادیا ہے ۔ زندگی کے تمام معمولات ان کی مرضی سے چلتے ہیں ۔ انسانی زندگی کا پہیہ ان کے ہی حکم پر چلتا ہے ۔ انسانی سانسیں اور رات دن ان ہی کے بنائے گئے اصولوں پر گردش کرتے ہیں ۔ سارا علم ان کے تابع آگیا ہے ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی ، میڈیکل سائنس ان ہی کے اصولوں کے ماتحت ہے ۔ انسان اپنی غذائیں شریعت کے احکامات پر نہیں بلکہ ان کے ضابطے کے مطابق کھاتے ہیں ۔ سارا کھانا پینا ، اوڑھنا اور بچھونا یہاں تک کہ چلنا پھرنا مغربی ممالک میں تیار میقات کے مطابق آگیا ہے ۔ ان کا سارا نظام شمسی کلینڈر کے حساب پر مقرر کیا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے پوری دنیا پر شمسی کلینڈر کا غلبہ ہے ۔ اسی کا استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی برائی نہیں کہ انسان کون سا کلینڈر استعمال کرتا ہے ۔ شمسی یا قمری دونوں اللہ کے مقرر کردہ نظام کا حصہ ہیں ۔ بلکہ اسلامی عبادات کا بڑی حصہ شمسی کلینڈر کے مطابق ہی ادا کیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ نمازوں کے اوقات شمسی کلینڈر کے زیر سایہ مقرر ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہجری کلینڈر وجود میں نہیں آیا تھا ۔ بلکہ اس کا حساب ہجرت کے سال سے لگایا گیا ہے ۔ ہجری مہینے پہلے سے موجود تھے ۔ تاہم ہجری سال اور کلینڈر حضرت عمرؓ کے زمانہ خلاف میں رائج کیا گیا ۔ آج اس کے استعمال اور عدم استعمال سے بہ ظاہر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس کو ترک کرنے سے اسلامی نظام عروج کا ایک باب بند ہوگیا ہے ۔ ہجری کلینڈر کے زوال سے مسلم نظام حیات کے زوال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ کلینڈر فیس بک پر مبارک دینے یا ٹویٹر پر اس کی شہادت دینے سے رائج نہیں ہوگا ۔ مسلمانوں کے احیائے نو کے بغیر اس کا چلن ممکن نہیں ۔ عروج صرف حکومت کا نام نہیں ۔ بلکہ مجموعی زندگی میں انقلاب عظیم کا نام ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کے اسکولوں میں فرسودہ نظام موجود ہو ۔ معاشرہ ترقی سے غافل ہو ۔ نوجوان طبقہ مفلوج ہو ۔ ذہانت کا فقدان ہو اور عقل پر پردے پڑے ہوں ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر آپ مسلمانوں کے عروج اور خلافت کا اعلان کریں ، عملی طور ایسا ہرگز ممکن نہیں ۔ دنیا سے مسلم غلبہ اسی وجہ سے ختم ہوا کہ ان کے اندر جزبے کے سوا کوئی دوسری چیز موجود نہیں تھی ۔ مسلمانوں نے پرنٹنگ پریس کو اسلام کے مخالف قرار دیا ۔ علمی اداروں کو ترقی دینے میں رکاوٹیں ڈالیں ۔ یہاں تک کہ جدید سائنس کو کفر کی سازش قرار دیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علوم و فنون سے ان کو رخصت کیا گیا اور قانون قدرت کے مطابق خلافت کی بھاگ ان سے چھین لی گئی ۔ تخت و تاج ان کے ہاتھوں میں دیا گیا جو اس کے مستحق تھے ۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی قرآن کے بجائے بائیبل کو عام کیا ۔ شاعری کے بجائے سائنس اور ریاضی کو رائج کیا ۔ روایتی علوم کے بجائے جدید طرز فکر کو عروج بخشا ۔ اب یہ انہی اقوام کے ہاتھ میں تھا کہ کیا کچھ باقی رہے اور کیا فنا ہوجائے ۔ عیسوی کلینڈر زندگی کا حصہ بنادیا گیا ۔ اس کو دیواروں پر لٹکایا گیا اور ہجری کلینڈر کو پس دیوار دفنایا گیا ۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
زندہ قومیں اپنے نئے سال کے دن کو جوش و خروش سے مناتی ہیں ۔ اس موقعے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے ۔ پنجابی اپنے نئے سال کے آغاز کو بطور ایک قومی تہوار کے مناتے ہیں ۔ انہوں نے اس دن کو بیساکھی کا نام دیا ہے ۔ ایرانی نوروز کو پورے احترام سے مناتے ہیں ۔ چین کے لوگ نئے سال کے پہلے دن کو اپنی ترقی کی علامت کے طور مناتے ہیں ۔ یورپ میں نئے سال کے آغاز پر جشن منایا جاتا ہے ۔ رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔ مصر کے لوگ اس موقعے پر موسیقی اور کھانے پینے کی مجلسوں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہی حال دوسری قوموں کا ہے ۔ مسلمان اپنے نئے سال کے آغاز پر غم و الم کی صورت بنے ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس رہاہی کیا ہے کہ خوشی کا اظہار کریں اور خوش بختی کی محفلیں سجائیں ۔ ان سے اقتدار ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں ان کی بالا دستی ختم ہوچکی ہے ۔ علم کے سرمایہ سے انہوں نے ہاتھ دھو لئے ۔ مالی ترقی کو انہوں نے ترک کیا ۔ سائنس کو انہوں نے یہودیوں کا جھانسہ مان کر اس سے ہاتھ دھولئے ۔ آلات حرب و ضرب کو کفر کا آلہ کار سمجھ کر اپنے سے الگ کردیا ۔ فزیکس کمسٹری کو اپنے دشمنوں کی ملکیت میں دے کر اس سے کنارہ کیا ۔ غرض اللہ کی تمام نعمتوں سے انکار کرکے ان سے خود کو الگ اور دور کردیا ۔ اس صورتحال کے اندر اقتدار ان کی تحویل میں رہے ممکن نہیں ۔ ہجری کلینڈر دنیا میں رائج رہے دیوانے کے خواب سے زیاد کچھ بھی نہیں ۔ اس موقعے پر ہجری سال کا آغاز ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک زمانے میں آپ کی بھی بڑی حیثیت تھی ۔ اہمیت تھی ۔ آپ کا رعب اور دبدبہ تھا ۔ لیکن آپ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ۔ ایسا کیسے ہوا دنیا جانتی ہے ۔ صرف آپ خود اس سے بے خبر ہیں ۔ نیا سال آپ کو یاد دلانے آیا ہے کہ آپ اپنے گزرے ایام کا حساب لگائیں اور آنے والے کل کے لئے منصوبے تیار کریں ۔ جب ہی آپ نئے سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کے مستحق ہیں ۔ ورنہ یہ محض نیا اسلامی سال ہوگا مسلمانوں کا نیا سال نہیں ہوگا ۔