تحریر:مسلم سجاد
اچھے وقتوں کی بات ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو باوضو ہوکر دودھ پلاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ اگر تیرے حلق سے کبھی لقمۂ حرام اترا تو تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔ مائیں اس کا اہتمام بھی کرتی تھیں کہ خود ان کے حلق سے بھی لقمہ حرام نہ اترے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ محاورہ متروک ہونے کے ساتھ ساتھ، اب حرام کے حرام ہونے کا تصور بھی بالعموم ہمارے معاشرے سے متروک ہوگیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ نیا کلچر بس یہ ہے کہ کسی بھی طرح مال آنا چاہئے تاکہ آسائش رہے ، بقول شاعر: بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔
زمانہ جدید ہےاس لئے شاطرانہ مہارت سے ناجائز اور حرام کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں اور دواساز کمپنیوں، اسکول اور اسٹیشنری شاپس وغیرہ سامنے کی مثالیں ہیں۔ حلال حرام زندگی کے ہر دائرے میں ہے۔ ہر جگہ سے تمیز اٹھتی جارہی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ کریں کہ معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کے اور ان کی اولاد کے منہ میں حرام کا لقمہ نہ جائے۔ یقیناً ابھی ایسے لوگ موجود ہیں اور ان کی وجہ سے یہ معاشرہ عذابِ الٰہی کی ایسی گرفت میں نہیں آیا ہے کہ مٹا دیا جائے لیکن عام صورت حال کا اندازہ آپ اپنے اطراف کا جائزہ لےکر کرسکتے ہیں۔
حرام اور رشوت کا کیا اثر ہوتا ہے۔قرآن میں بنی اسرائیل کے حوالے سے اس کے لئے سحت کا لفظ آیا ہے جس کے معنی جڑ کٹ جانے کے ہیں۔ جس معاشرے میں رشوت ایسے عام ہو جس کا تجربہ اور مشاہدہ ہم کو براہِ راست بھی ہوتا ہے اور واقعات علم میں آتے ہیں اور اخبارات کے ذریعے عام بھی ہوتے ہیں، وہ معاشرہ کھوکھلا ہوتا رہتا ہے اور بالآخر اس کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
حرام عام ہو جانا ہی اس کی وجہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔کیا ہمارے معاشرے میں دعائیں کرنے میں کچھ کمی ہے۔ لوگ مکہ مدینہ جاکر روتے ہیں، گڑگڑاٹے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا۔ دعا منہ پر مار دی جاتی ہے۔ حدیث کے مطابق بندہ کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کی نہیں سنی جاتی کیونکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے۔ جس غذا سے اس کے رگ ریشے پٹھے بنتے ہیں، حرام ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک موقع پر رسولؐ اللہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں مستجاب الدعوات ہوجائوں تو آپؐ نے ان سے فرمایا: حلال کھانے کا اہتمام کرو، تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔
یہ حلال حرام کا مسئلہ کوئی ذاتی یا انفرادی نہیں، معاشرتی مسئلہ ہے۔ اگر کسی جادو کی چھڑی سے ہمارے معاشرے کا ہر فرد صرف حلال پر اکتفا کرے اور حرام سے پرہیز کرے تو آپ چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے میں سکون ہوگا۔ ضرورت ہے کہ قوم کے بہی خواہ ایسی کوئی تحریک چلائیں کہ حرام کو حرام سمجھنے کا کلچر عام ہو۔ اس حوالے سے حس اتنی تیز ہوجائے کہ بچے والدین سے خود کہیں کہ پیارے ابو، خدا کے لئے ہمیں حرام مت کھلائیو۔ بیویاں شوہروں کو بتا دیں کہ حلال کی روکھی سوکھی حرام کے پراٹھوں سے بہتر ہے۔ حرام کھانے والے، معاشرے میں معزز نہیں، ذلیل ہوں۔ حرام کھانے کے راستے بند کیے جائیں، حرام کھانے والوں کی گرفت ہو۔ اگر مجرم کو یقین ہو کہ وہ بچ نہ سکے گا، تو ارتکابِ جرم کا حوصلہ کرنے والے بہت کم رہ جائیں گے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک پیلو کی لکڑی کے برابر بھی کسی کا کوئی حق غصب کیا ہو تو روز قیامت ادا کیے بغیر چھٹکارا نہیں ہوگا۔
