تحریر:سہیل زبیری
پچھلے مضمون میں، میں نے ان عوامل کا تذکرہ کیا تھا، جن کی بدولت اسلامی تہذیب نے علمی دنیا میں برتری حاصل کی۔ اس مضمون میں، میں بیان کروں گا کہ یہ سنہری دور کیسے اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ کیا وجوہات تھیں جنہوں نے اسلامی دنیا کو ایسی تاریکی سے ہمکنار کیا جس سے وہ آج تک نہیں نکل پائے۔
زیادہ تر معاشروں میں مذاہب ثقافتی روایات کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان معاشروں میں مذاہب ایک موثر انداز میں اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تاہم اس بات کا کسی بھی مذہب کی درستی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ اسلام جو ایک وقت متحرک مذہب اور دنیا میں علمی اور فکری سوچوں کا مرکز تھا، اس وقت اپنے تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ تاریک دور سات سو سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دور میں مغربی تہذیب نے نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ علم کے تقریباً ہر شعبے میں مسلم دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ علم کی یہ خلیج وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ مسلم معاشرے فرقہ ورانہ کشمکش، رجعت پسندانہ سوچ، علم مخالف فکری رویہ اور جمود کا شکار ہیں۔
ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ پچھلے سات سو سالوں میں مسلم معاشرے علمی میدان میں شکست خوردگی کا شکار رہے ہیں؟ اگلا سوال یہ ہو گا کہ کامیاب قوموں کی صف میں شامل ہونے کے لیے مسلمان دین کی اصلاح کیسے کر سکتے ہیں؟
بارہویں صدی کے آخر میں اسلامی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ علم کے تمام شعبوں میں مسلمان کامیاب اور نمایاں تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ اپنے تاریک دور سے گزر رہا تھا اور پچھلے ہزار سالوں میں علم کے میدان میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن بہت جلد سب کچھ بدل گیا۔ دو سو سال میں اسلامی تہذیب زوال پذیر ہو چکی تھی۔ 1300 عیسوی کے بعد مسلمانوں کا فلسفے، سائنس، ریاضی، اور طب میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں نظر آتا۔ 1100 عیسوی اور 1300 عیسوی کے دوران ایسا کیا ہوا کہ اسلامی دنیا کا سنہری دور اختتام پذیر ہوا اور ایک طویل رات شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے اور جس کا اختتام دور دور تک نظر نہیں آتا۔
اس دوران دو اہم واقعات رونما ہوئے جو علم کے میدان میں اسلامی بالادستی کے زوال کا باعث بنے، ایک صلیبی جنگوں کا آغاز اور پھر منگولوں کے ہاتھوں مسلم دنیا میں علم کے مراکز کی تباہی۔ 27 نومبر، 1095 کو، پوپ اربن دوم نے کلیریمونٹ کی کونسل میں چرچ کے رہنماؤں کی ایک جماعت کے سامنے قرون وسطی کی شاید سب سے زیادہ نتیجہ خیز تقریر کی۔ انہوں نے شرکت کرنے والے پادریوں اور عیسائی مذہب کے دوسرے رہنماؤں سے یروشلم کی ”مقدس سرزمین“ کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرانے کا حکم دیا۔ 638ء میں حضرت عمر کے دور خلافت میں مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تھا۔ پوپ اربن دوم کی پکار پر پوری عیسائی قوم نے لبیک کہا۔ اس تقریر نے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا۔ یہ صلیبی جنگیں تقریباً دو سو سال تک جاری رہیں، جس دوران عیسائی فوجیں وقفے وقفے سے فلسطین پر حملہ آور ہوتی رہیں۔ شروع میں صلیبی اپنے مقصد میں کامیاب رہے لیکن آخر کار ناکام ہوئے اور 1291 میں آخری صلیبی جنگ میں انہیں مشرق وسطیٰ سے مکمل طور پر نکال دیا گیا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ صلیبی جنگیں یورپیوں کے لیے ایک اہم مثبت موڑ ثابت ہوئیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی مورخین 1095 کو وہ سال قرار دیتے ہیں جب یورپی اپنے اس تاریک دور سے نکلے تھے جس میں وہ چھٹی صدی میں رومی سلطنت کے زوال کے وقت داخل ہوئے تھے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود کہ صلیبی جنگیں عیسائی افواج کے لیے ایک فوجی ہزیمت ثابت ہوئیں۔ اعلیٰ درجے کی اسلامی تہذیب سے رابطہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ یونانی علم جو رومی دور میں کھو گیا تھا اس تعامل کے ذریعے یورپیوں تک پہنچا۔ اٹلی میں نشاۃ ثانیہ، جرمنی میں اصلاحی تحریک اور پورے یورپ میں عقلیت کے دور کا آغاز، ان سب کی جڑیں دو سو سال تک کھیلے جانے والے اس ڈرامے سے وابستہ ہیں۔ یہ حقیقت کہ خدا ”کافر مسلمانوں“ کی فوجوں سے مقدس سرزمین چھیننے میں صلیبیوں کی مدد نہیں کر سکا تھا، اس نے کلیسیا کی عوام پر گرفت کو کمزور کر دیا۔ اس ناکامی نے کلیسا کو تقسیم کرنے والی ایک اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ چرچ کے کمزور ہونے کے ساتھ، یورپ میں عقلی سوچ نے زور پکڑا جو سولہویں صدی میں ایک سائنسی انقلاب کا باعث بنا۔ یہ انقلاب آج تک جاری ہے۔
اگرچہ مسلمان عسکری طور پر عیسائی افواج کو پسپا کرنے میں کامیاب رہے لیکن وہ حتمی طور پر شکست خوردہ ثابت ہوئے۔ مسلمان ایک صدی سے زائد عرصے تک مسلسل صلیبی حملوں کی زد میں رہے تھے جب ایک المناک واقعہ پیش آیا۔ تیرہویں صدی کے اوائل میں منگول بین الاقوامی منظر پر اچانک نمودار ہوئے اور ایک خونی فوجی مہم جوئی کے نتیجے میں وسطی ایشیا سے مغربی یورپ تک پھیل گئے۔ ایسی خونی فوجی مہم جوئی دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ چنگیز خان نے ابتدائی حملوں کا آغاز سب سے پہلے وسطی اور مشرقی ایشیا میں خانہ بدوش قبائل کو فتح کرتے ہوئے کیا۔ ان میں تاتار، ترک اور ایغور شامل تھے۔ اس نے اسلامی وسطی ایشیا میں توسیع جاری رکھی۔ جہاں بھی مزاحمت کا سامنا پڑا، منگولوں نے وہ قصبے اور شہر تباہ و برباد کر دیے۔ چنگیز خان کی موت کے بعد بھی منگولوں کی توسیع جاری رہی اور انہوں نے وسطی ایشیا سے وسطی یورپ تک پھیلی ہوئی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بنائی۔
مسلمانوں کی حکومت صلیبیوں کے حملوں کی وجہ سے کمزور پڑ چکی تھی جب وہ شمال سے منگولوں کے وحشیانہ حملوں کی زد میں آئے۔ وہ اپنی سلطنت کا دفاع نہیں کر سکے۔ سب سے بڑی تباہی 1258 میں ہوئی جب ہلاکو خان کی قیادت میں منگولوں نے دارالحکومت بغداد کو فتح کیا۔ انہوں نے بنیادی طور پر شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ خلیفہ المعتصم کو موت کی گھاٹ اتار دیا اور ایک بڑی آبادی کا قتل عام کیا گیا۔ عباسی دور کی اکثر لائبریریاں تباہ کر دی گئیں۔ ان میں بیت الحکمت بھی شامل تھی، جو چار سو سال سے زیادہ عرصے سے موجود تھی اور اسلامی سنہری دور کی علامت تھی۔ اسے اس حد تک تباہ کر دیا گیا کہ اس کے کوئی آثار بھی نہ چھوڑے۔ اس عظیم ادارے کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ الطبری جیسے مورخین کی وجہ سے ہے۔
ان واقعات نے اسلامی دنیا کو تین طرح متاثر کیا۔
مسلمانوں میں فلسفیانہ سوچ ختم ہو گئی، جو سائنسی میدان میں ترقی کی علامت تھی۔
اسلام میں تصوف کو عروج حاصل ہوا۔ جس نے سائنسی سوچ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اسلام میں ایک بنیاد پرستی کی تحریک نمودار ہوئی، جس نے آزادانہ سوچ پر تالے ڈال دیے۔
صلیبی جنگوں اور منگولوں کے ہاتھوں تباہی کا اثر لوگوں کی مذہبی سوچ پر پڑا۔ مسلمانوں نے جو فلسفیانہ روایات اختیار کیں وہ یونانیوں سے آئی تھیں۔ ارسطو کو عقلیت کا باپ سمجھا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں نے یونانیوں کی فلسفیانہ روایات سمیت ہر یورپی چیز کے لیے دشمنی پیدا کی۔ ارسطو، افلاطون اور پلاٹینس، جو نویں صدی کے اوائل میں ترجمے کی تحریک میں دریافت ہوئے تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کی فلسفیانہ سوچ کی آبیاری کی تھی، اب ان کا تعلق حملہ آور صلیبیوں سے تھا۔ یہ رویہ جزوی طور پر مسلمانوں کی فلسفہ سے بیگانگی کی وضاحت کر سکتا ہے۔ یہ صورت حال موجودہ وقت سے زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں بہت سے اسلامی حلقوں میں سائنس مخالف رویہ پایا جاتا ہے کیونکہ سائنس نے تقریباً مکمل طور پر ”کافروں“ کی سرزمین میں ترقی کی ہے۔
منگولوں کے ہاتھوں تباہی نے بھی اسلامی سوچ پر بہت اثر ڈالا۔ ایک شکست خوردہ قوم کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خول میں سمٹنا چاہتی ہے۔ فلسفیانہ سوچ، جو یونانیوں سے حاصل کی تھی، اب مسلمان اس سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ کسی ایسی چیز میں سکون حاصل کرنا چاہتے تھے جو مکمل طور پر ان کی ہو۔ لوگ ایسا خدا چاہتے تھے جو ان تاریک وقتوں میں قریب تر، ہمدرد اور مددگار ہو۔ ایک ایسے خدا کی ضرورت تھی جو معجزات لا سکتا ہو۔ فلسفیوں کا خدا، جو انسانی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا تھا، ان کی جذباتی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس نے مضبوط صوفیانہ سوچ کو جنم دیا۔
تصوف کی روایت اسلام کے ابتدائی سالوں سے چلی جاتی ہے۔ تصوف حتمی سچائی کی تلاش اور خدا کے ساتھ متحد ہونے کی خواہش ہے۔ یہ روحانی تجربات پر مبنی ہے جو عقل اور عقلیت کے دائرے سے باہر ہیں۔ بارہویں اور تیرہویں صدیوں پر مشتمل اس دور نے بہت سے عظیم صوفیاء کو جنم دیا جن میں عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی، ابن عربی، شمس تبریزی جلال الدین رومی اور نظام الدین اولیا شامل ہیں۔ ان روحانی شخصیات کو اولیاء کا درجہ دیا اور ان کے نام پر مزارات تعمیر کیے گئے۔ تصوف پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا۔ تصوف اور ان کے پیروکار اسلامی معاشروں کا مرکزی جزو بن گئے۔ مافوق الفطرت واقعات اور معجزات کی ایک بڑی تعداد ان اولیاء کے ساتھ وابستہ تھی۔ جو لوگ ان معجزات پر یقین رکھتے تھے وہ سائنسی سچائی کی آفاقیت کی تعریف کیسے کر سکتے تھے۔ اس طرح کے معجزات فطرت کے ان قوانین کی سراسر خلاف ورزی تھے جو اس وقت سمجھے جاتے تھے اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم مذہبی تقویٰ نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں ایسے واقعات پر سوال اٹھانا معیوب سمجھا جانے لگا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جن معاشروں میں تصوف کا غلبہ تھا، وہاں سائنس اور سائنسی سچائی کا احترام کم ہوتا گیا، جو بالآخر سائنس مخالف رویہ پر منتج ہوا۔
منگولوں کے ہاتھوں اسلامی سلطنت کی تباہی نے اسلامی معاشروں میں قدامت پسندانہ رجحان کو بھی جنم دیا۔ اس نے خدا اور اسلام کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ کو بہت متاثر کیا۔ وہ شخص جس نے اسلامی دنیا میں بنیاد پرستی کی بنیاد رکھی وہ احمد بن تیمیہ تھے جو منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے چھ سال بعد 1264 عیسوی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ہمارے زمانے کی بہت سی عسکری اسلامی اور جہادی تحریکوں کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفر میں تقسیم کیا، دارالاسلام جہاں اسلامی اور شرعی قوانین نافذ ہوں اور دار الکفر جس پر کافروں کی حکومت ہو۔
فلسفیانہ سوچ کے زوال اور صوفیانہ اور بنیاد پرستی کی تحریکوں نے ایسا معاشرہ جنم دیا جس میں مذہبی موضوعات پر کھلی اور دیانتدارانہ فکری بحث کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ رویے، جو آج تک جاری ہیں، اسلام کے فکری سنہری دور کے لیے موت کی گھنٹی ثابت ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس رجعت پسندانہ معاشرے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ اسلامی سوچ میں کیا تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ایک مرتبہ پھر علمی اور فکری دنیا میں اپنا کردار ادا کر سکیں؟