تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
مرکزی سرکار نے اپنے شہریوں سے یونیفارم سیول کورڈ کے حوالے سے رائے مانگی ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون بناکر اس کا نفاذ عمل میں لایا جائے ۔ اس موضوع پر عام شہریوں سے ان کے خیالات پیش کرنے کو کہا ہے ۔ اس کے ردعمل میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اکابر نے تمام مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ایسے کسی بھی قانون کے خلاف رائے دینے کی اپیل کی ہے ۔ حکومت نے جمہوریت سے بڑھ کر طریقہ کار اپنایا ہے اور ریفرنڈم کے طرز پر تمام شہریوں سے رائے طلب کی ہے ۔ ایسا کرنا حکومت کے لئے ضروری نہ تھا ۔ اس وقت مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں جو سرکار قائم ہے اس کے پاس کوئی بھی قانون بنانے اور نافذ کرنے کے لئے درکار حمایت سے زیادہ پارلیمانی ممبران کی طاقت موجود ہے ۔ صدر جمہوریہ اور دوسرے تمام اداروں کی حمایت حکومت کو حاصل ہے ۔ ایسا سب کچھ دیکھ کر حکومت بڑی آسانی سے یونیفارم سیول کوڈ کا نفاذ عمل میں لاسکتی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ستھر سال سے زائد عرصے سے یہ مطالبہ رہاہے کہ ملک پر یکساں قانون کا نفاذ عمل میں لایا جائے ۔ اس نے اپنے الیکشن منشور میں عوام کی حمایت حاصل ہونے کی صورت میں جو کام کرنے کا وعدے کئے ہیں ان میں یونیفارم سیول کوڈ کا اطلاق بھی شامل ہے ۔ حکومت الیکشن منشور میں موجود قریب قریب تمام ایسے وعدوں پر عمل کرچکی ہے ۔ اب ایک ہی معاملہ یوسی سی کا باقی ہے اور اس پر عمل کرنے کے لئے اہم قدم اٹھایا جارہاہے ۔ اس میں کوئی قباحت نہیں کہ پارٹی اقتدار میں آکر اپنے اس وعدے کو بھی پورا کرے ۔ یونیفارم سیول کارڈ کے تیار کرنے اور اس کا نفاذ ممکن بنانے کی کوششیں انگریزوں کے دورسے جاری ہیں ۔ اس وقت موتی لال نہرو نے اس کے لئے تگ و دو شروع کی تھی ۔ انگریزوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس پر کام کا آغاز نہیں کیا جاسکا ۔ انگریزوں کے چلے جانے سے پہلے اس موضوع پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ عام شہریوں سے بات کرکے اس پر اقدام سازی کی جائے ۔ مسلمانوں کے علاوہ بعض دوسرے حلقوں کی مخالفت کی وجہ سے آگے نہ بڑھاجاسکا ۔ تاہم اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے اس پر کام جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ۔ ملک کی آزادی کے بعد دستور سازی کے دوران یہ مسئلہ پھر سامنے آیا ۔ دستور میں دفعہ44کی صورت میں اس کا حوالہ دیا گیا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کا عندیہ دیا گیا ۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ کسی بھی وقت یونیفارم سیول کوڈ کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ بھیم رائو امبید کر نے واضح کیا کہ مذہبی ریاستوں میں الگ الگ ضابطے ہوسکتے ہیں ۔ مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے ۔ لیکن سیکولر ریاست کے لئے ضروری ہے کہ یکساں ضابطے کا اطلاق کرے ۔امبید کر خاص طور سے ہندووں کے لئے یونیفارم سیول کوڈ چاہتے تھے جس کے لئے بل تیار کی گئی اور ڈرافٹ خود امیدکرنے ہی تیار کیا تھا ۔ لیکن بل پاس نہ ہوسکا اور امبیدکر سخت ناراض ہوکر وزیرقانون کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس زمانے سے لے کر آج تک یونیفارم سیول کوڈ کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ اس دوران کچھ ایسے قانون بنائے گئے جو مسلم شریعت کے منافی تھے ۔ اس کے ردعمل میں 1982 آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بنایا گیا ۔ مشہور زمانہ شاہ بانو کیس میں بورڈ نے کلیدی رول ادا کیا اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی ۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کے پورے زمانے میں بورڈ کچھ کرنے سے قاصر رہا ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان اس بات سے باخبر تھے کہ ایسے مسائل کا حل میٹنگوں ، بیانات اور جلسوں میں نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے لئے سیاسی جد و جہد کی ضرورت ہے ۔ سیاسی قیادت تیار کرنے اور پارلیمنٹ کے اندر ایسے قانون کو پاس ہونے سے رو کے بغیر اس طرح کے کسی اقدام کو کمزور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ان حقایق سے باخبر ہونے کے باوجود سیاسی پیش رفت نہ ہوسکی ۔ بلکہ بورڈ کے ممبران فتویٰ بازی اور اپنی شخصیت سازی میں مصروف رہے ۔ یہ اپنے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کو ی دھوکہ دیتے رہے کہ ان کا دین ، ان کی شریعت اور ان کی اجتماعیت محفوظ ہے ۔ سیکولر ملک میں یکساں سیول کوڈ کسی کے بس کی بات نہیں ۔ حالانکہ مسلمان ہمیشہ ہی یکساں سیول کوڈ کے مخالف رہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس حوالے سے بنائے گئے بورڈ نے ان کے خیالات کی صحیح عکاسی نہیں کی ۔ اس کے لئے کوئی سیاسی تحریک چلائی نہ دوسرے گروہوں کے ساتھ کوئی مشاورت کرکے صحیح العقل ہونے کا ثبوت دیا گیا ۔ بورڈ کے راگ اور راگنی نے مسلمانوں کو خفتہ تو کیا ۔ تحفظ شریعت کا کوئی کام انجام نہ دیا ۔ بورڈ آج بھی جو حرکتیں کررہاہے اور سمجھتا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے لئے خیر کا کوئی کام انجام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ دھوکہ دہی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ سیاسی شعور اور سیاسی بیداری کے بغیر آج کی دنیا میں آگے بڑھنا ہر گز ممکن نہیں ۔ یہاں ووٹ ہی سب کچھ ہے ۔ جمہوریت میں ووٹ کو موت و حیات کی پوزیشن حاصل ہے ۔ جو لوگ اس کی قدر نہیں کرتے یا اس کی قیمت نہیں سمجھتے ۔ انہیں اس کی قیمت چکانا ہوتی ہے ۔ مسلمان ووٹ کی اہمیت نہ سمجھیں تو سمجھ لیں کہ وہ زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتے ۔ بورڈ یا ملائوں کی کسی اور ٹیم کی ڈفلی بجانے سے شیر بھاگنے والا نہیں ہے ۔
